ریاض(نیوز ڈیسک) سعودی عرب کی معیشت کا دارومدار محض تیل کی پیداوار پر ہے، تیل ہی کی بدولت آج سعودی عرب دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ آج سعودی باشندے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن اس شخص کا شاید نام بھی نہیں جانتے ہوں گے جس نے 20ویں صدی کے اوائل میں سعودی عرب میں تیل کی تلاش میں اہم کردار ادا کیا۔مزیدپڑھیں:دستانے نہ پہننے پر مذہبی پولیس نے سعودی خاتو ن کو شاپنگ سینٹر سے باہر نکال دیااس شخص کا نام خمیس بن رمضان تھا ، خمیس نے 1935ئ میں سعودی عرب میں تیل کی تلاش کے لیے آنے والی امریکی ماہرین ارضیات کی ٹیم کے لیے رہنمائ کی خدمات سرانجام دی تھیں۔ خمیس پورے سعودی عرب کے راستوں سے واقف تھا اور سمت کا تعین کرنے میں اسے خاص مہارت حاصل تھی۔ اس نے نہ صرف ماہرین کی ٹیم کو تیل والی جگہیں تلاش کرنے میں مدد دی بلکہ انہیں بدو?ں کی اصل زندگی سے بھی آشنا کروایا، اس نے ماہرین کی پہاڑوں میں بسنے والے بدو?ں سے ملاقاتیں کروائیں، ان ملاقاتوں میں وہ مترجم کا کرداربھی احسن طریقے سے نبھاتا رہا۔ ماہر ارضیات خمیس کی صلاحیتوں سے استفادہ کیے بغیر تیل کی تلاش میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔خمیس نے کوئلے کی تلاش میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ خمیس کی نشاندہی پردمام میں کھودے گئے الخیر کنویں سے ان دنوںروزانہ 1585بیرل تیل نکلتا تھا۔ سعودی کمپنی ارامکونے خمیس کی خدمات کے پیش نظر تیل کے ایک کنویں کو اس کے نام سے بھی منسوب کر رکھا ہے۔