اسلام آباد (نیوز ڈیسک )کہتے ہیں کہ بلی اپنے تجسس کے ہاتھوں ماری جاتی ہے۔ بلیوں کے بارے میں نجانے یہ بات سچ ہے یا نہیں لیکن 1880ءمیں ایک امریکی بندر واقعی اپنے تجسس کے ہاتھوں مارا گیا۔جیرمی کلے ” ایک تحریر میں بتاتے ہیں کہ جوکو نامی ایک بندر اپنے مالک راک ویل سائروک کے ساتھ انیسویں صدی کے امریکا میں سرعام پھانسیوں کے مناظر دیکھنے کا شوقین تھا۔ وہ دونوں شہر شہر گھومتے اور مجرموں کی سرعام پھانسیوں سے لطف اندوز ہوتے۔ 1880ءکے موسم گرما میں ایک دن راک ویل اور جوکو ایک مجرم کی پھانسی کا منظر دیکھنے کے لئے بے تاب تھے کہ ریاست کے گورنر کے حکم پر پھانسی کچھ وقت کے لئے ملتوی کردی گئی۔ راک ویل وقت گزارنے کے لئے پھانسی گھاٹ کے قریب چلا گیا اور اس کا معائنہ شروع کردیا۔ جوکو اپنے مالک سے بھی زیادہ متجسس تھا اور اس نے پھانسی کے لئے کھڑے کئے گئے ستون اور اس کے ساتھ لٹکتے پھندے کا بغور مشاہدہ شروع کردیا۔ بالآخر مجرم کو لایا گیا اور پھندے سے لٹکا کر اس کی زندگی ختم کردی گئی۔ ایک اور پھانسی کے منظر سے لطف اندوز ہونے کے بعد دونوں گھر واپس آگئے لیکن اس دفعہ منفرد بات یہ تھی کہ جوکو پھانسی گھاٹ اور پھانسی کے عمل کا بغور مشاہدہ کرکے آیا تھا۔ جب راک ویل سونے کے لئے چلا گیا تو جوکو باڑے میں گیا اور اپنی پراسرار سرگرمی میں مصروف ہوگیا۔ اگلے دن راک ویل باڑے میں گیا تو جوکو کو چھت کے ستون کے ساتھ مردہ حالت میں لٹکتا ہوا پایا۔ بدقسمت بندر نے گزشتہ روز دیکھے گئے منظر کی تقلید کرتے ہوئے چھت کے ستون کے ساتھ کپڑے لٹکانے والی رسی کا پھندہ بنا کر خود کو لٹکا لیا تھا۔ اور یوں ہم انیسویں صدی کی عجیب و غریب ترین پھانسی کی کہانی کا اختتام کرتے ہیں۔