اسلام آباد (نیوز ڈیسک)موت کے حوالے سے روایتی تصور یہ ہے کہ یہ انسانی دل ہے جو موت کے وقت سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دل دھڑکنا بند کرتا ہے جس کی وجہ سے دوران خون کی سپلائی بند ہوجاتی ہے۔ دوران خون کی سپلائی کا رکنا دیگر جسمانی اعضاءکی کارکردگی کو بھی روک دیتا ہے اور یوں موت ہوجاتی ہے۔ اسی لئے اچانک بنا کسی وجہ کے ہونے والی اموات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”حرکت قلب بند ہونے سے موت واقع ہوگئی“ تاہم جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ موت کے حوالے سے یہ روایتی تصور غلط ہے اور زندہ افراد کے موت کا مشاہدہ کر لینے کی وجہ بھی آکسیجن کی کمی یا دل دھڑکنے کی رفتار میں کمی نہیں بلکہ دماغ میں آنے والی تبدیلیاں ہوتی ہیں جو کہ اس تجربے کا باعث ہوتی ہیں۔
اس مقصد کیلئے ماہرین نے آکسیجن کی کمی سے ہلاک ہوتے ہوئے چوہوں کے دل و دماغ کا مشاہدہ کیا جس سے معلوم ہوا کہ دماغ دل کو بے ربط قسم کے سگنل بھیجنا شروع کرتا ہے جس کیہ وجہ سے دل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے دل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور یوں انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ جن چوہوں میں ماہرین دماغ سے نشر ہونے والے ان خطرناک سگنلز کو روکنے میں کامیاب رہے، ان میں چوہوں کا دل کام کرتا رہا اور وہ زیادہ جی پائے۔ اس تحقیق کی روشنی میں اگر یہ تصور کیا جائے کہ انسانوں میں بھی یہی عمل واقع ہوتا ہے تو ایسے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ماہرین دماغ سے نشر ہونے والے اس سگنلز کے رابطے کو کاٹ کے انسانی جان کو بچا لیں گے۔ یہ تحقیق نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے زیر اہتمام شائع ہونے والے جرنل میں شامل ہے۔
اس تحقیق کے مصنف جیمو بورجیگن جو کہ یونیورسٹی آف مشیگن میڈیکل سکول میں نیورو سائنٹسٹ ہیں، کہتے ہیں کہ عام طور پر کسی بھی مرتے ہوئے شخص کی جان بچانے کے حوالے سے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اگر اس کے دل کو بچا لیا گیا تو اس کی جان بچائی جاسکتی ہے تاہم حقیقت ہے کہ دل کو بچانے کیلئے دماغ سے اس کے کیمیائی رابطے کو ختم کرنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مرتے ہوئے شخص کو بچانے کیلئے ہنگامی طور پر اپنائی جانے والی تکنیکس اس تحقیق سے یکسر مختلف طور پر کام کرتی ہیں، ایسے میں اس تحقیق کے تہلکہ مچا دینے کا قوی امکان موجود ہے۔ خاص کر اگر فی الوقت اس تکنیک سے انسانی جان کو بچانے کی شرح دیکھی جائے تو ایسے میں یہ تحقیق بے حد اہمیت کی معلوم ہوتی ہے۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ہر سال امریکہ میں چار لاکھ افراد کی حرکت قلب بند ہوجاتی ہے۔ ان کو طبی امداد ملنے کے باوجود بھی محض دس فیصد افراد یعنی کہ چالیس ہزار افراد کو ہی بچانا ممکن ہوپاتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں آکسیجن کی کمی کی صورت میں دل کے کام کرنا چھوڑ دینے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اگرچہ مریض ہوش و حواس کھو دیتا ہے تاہم اس کا دماغ کام کرتا رہتا ہے اور اس کی جانب سے سگنلز نشر کرنے کا کام جاری رہتا ہے جو کہ اس کے دل کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ماہرین نے اس تحقیق کی روشنی میں یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ افراد جو کہ اچانک موت کے جیسا تجربہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، غالباً ان کے جسم میں بھی دماغ اچانک کسی خرابی کی وجہ سے ویسے ہی سگنلز دل کو نشر کرنا شروع کردیتا ہے جس کی وجہ سے وہ موت کی مانند تجربہ کرتے ہیں۔