چین کے شہر شینزن کے ڈاکٹر ڈینس لو گزشتہ بیس برس سے ایک تکنیک استعمال کررہے ہیں جسے انہوں نے ’لکوئڈ بایوپسی‘ کا نام دیا ہے، اس طریقے میں جگر اور دوسرے کینسر کو ابتدائی علامات ظاہر ہونے سے قبل ہی خون کے چند قطروں میں موجود ڈی این اے کے ذریعے تشخیص کرلیا جاتا ہے۔ ڈینس لو دنیا میں واحد ماہر ہیں جو ماں کے پیٹ میں بچے کے ابتدائی آثار ماں کے خون میں ہی دکھادیتے ہیں جو ان کی وجہ شہرت بھی ہے، اسی تکنیک کو بہت مؤثر اور آسانی کے ساتھ ڈان سنڈروم کی شناخت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا اور اب تک 10 لاکھ مائیں اس سے فائدہ اُٹھاچکی ہیں۔
ڈینس آج کل کینسر کے لیے ایک سادہ بلڈ ٹیسٹ کو مزید آسان اور کمرشل بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مرتے ہوئے کینسر سیلز(خلیات) خون میں ڈی این اے کے آثار چھوڑ جاتے ہیں، اس سے قبل خون میں صحت مند خلیات کی وجہ سے کینسر ڈی این اے کی معمولی مقدار کو شناخت کرنا ناممکن تھا، لیکن وہ کہتے ہیں کہ خون کا سالانہ ٹیسٹ کرایا جائے تو اس مرحلے پر کینسر پر قابو پانا ممکن ہوجاتا ہے۔
ڈینس ان دنوں ایک ایسی تحقیق میں مصروف ہیں جس سے خون میں موجود ڈی این اے کو کینسر شناخت کرنے کے لیے ایک باقاعدہ ٹیسٹ کا درجہ مل سکے۔ سائنسدان ہیپا ٹائٹس بی کے ایک ہزار مریضوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا الٹراساؤنڈ سے قبل جگر کی رسولیوں کو ڈی این اے ٹیسٹ میں شناخت کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ ایک اور اسٹڈی میں ناک اور حلق کے سرطان ( نیسوفریگل کارسینوما) کو دیکھا جارہا ہے جو حلق کے اوپری حصے سے شروع ہوتا ہے۔ دنیا میں یہ مرض نایاب ہیں لیکن جنوبی چین میں ہر 60 میں سے ایک شخص اپنی زندگی میں اس کا شکار ہوسکتا ہے۔
اس مطالعے میں درمیانی عمر کے 20,000 تندرست افراد شامل کیے گئے جب کہ پہلے 10,000 میں سے 17 افراد میں کینسر کی شناخت ہوئی اور ان میں سے 13 میں ابتدائی درجے کا کینسر پایا گیا تاہم ان تمام افراد میں ریڈی ایشن تھراپی سے کینسر ختم کردیا گیا ہے۔
چین میں تمباکو نوشی، فضائی آلودگی اور تیزرفتار زندگی نے کینسر کو چین کی علامت بنادیا ہے اور مغرب کے مقابلے میں جگر کا سرطان یہاں چار گنا ذیادہ ہے جب کہ دیگر اقسام کے کینسر کی شرح بھی بہت بلند ہے۔ ڈاکٹر ڈینس اعتراف کرتے ہیں کہ کینسر کئی طرح اور کئی اقسام کے ہوتے ہیں لیکن ایک مرتبہ خون کا ٹیسٹ کامیاب ہوجائے تو بقیہ کینسر کے لیے بھی تشخیص کی راہیں بھی کھل سکتی ہیں۔
دوسری جانب لکوئڈ بایوپسیز کی کمرشل دوڑ بھی شروع ہوچکی ہے، اسکرپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ امریکا میں جینومکس کے پروفیسر ایرک ٹوپول نے کہا ہے کہ جس طرح اسٹیتھواسکوپ ایک اہم طبی آلہ ہے اسی طرح خون سے کینسر کی شناخت کا یہ طریقہ آئندہ 200 برس کے لیے ایک اسٹیتھواسکوپ کی طرح اہمیت اختیار کرے گا، دیگر ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ طبی دنیا میں ایک انقلاب کی وجہ ہوگا جس کی اس وقت کمرشل مارکیٹ قریباً 40 ارب ڈالر سالانہ ہے۔
کینسرکا مرض بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور اس کی شناخت بھی مشکل ہوتی ہے اور کینسر آخری اسٹیج پر پہنچ جائے تو بہت حد تک لاعلاج ہی رہتا ہے۔ امریکا میں سرطان سے اموات کی روک تھام کی سب سے بڑی وجہ مرض کی ابتدائی شناخت ہے۔ مثلاً امریکا میں کولونوسکوپی کی وجہ سے آنتوں کے سرطان سے مرنے والوں کی تعداد میں نصف سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے۔
خون کے صرف چند قطروں سے پتا لگانا نہایت آسان
8
مئی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں