اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیر مملکت صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں کینسر کا ہسپتال قائم کرنے پر غورکیا جا رہا ہے کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے اس کی وجہ پاکستان میں ادویات کا تیار نہ ہونا شامل ہے پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ 60 ہزار افراد کینسر کا شکار ہو رہے ہیں دنیا میں بھی کینسر کا مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے ملک میں گزشتہ دو سالوں کے دوران ڈینگی بخار سے 129 افراد جاں بحق ہوئے ہں جبکہ انفرائنزا اے وائرس سے اسلام آباد میں چار افراد جاں بحق ہو ئے ہیں بدھ کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر اعظم سواتی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر مملکت صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ کینسر کا مرض پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے کیونکہ مرض کی تشخیص ہو رہیہے کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے پاکستان میں اٹامک انرجی کے چار ادارے اور پرائیویٹ شعبہ میں شوکت خانم ہسپتال علاج کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں پاکستان میں کینسر کی بہت کم دوائیاں بن رہی ہیں جس کی وجہ سے کینسر کی دوائیاں مہنگی ہیں اسلام آباد میں کینسر کے ہسپتال کے لئے غورو خوض کیا جا رہا ہے اس کی مستحکم سڈی پلاننگ ڈویژن میں ہو رہی ہے حکومت نے رقم جاری کر دی ہے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ کینسر کے کیس ہو سکتے ہیں حکومت کو ہر ڈویژن میں ایک کینسر ہسپتال قائم کرنا چاہئے وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ کوئٹہ میں کینسر کا ہسپتال صوبائی حکومت کے پاس ہے تشخیص ہونے کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ہماری بدقسمتی ہے کہ بہت سارے کیسز کا پتہ آخری مراحل میں چلتا ہے عورتوں میں برسٹ کینسر سب سے زیا دہ ہے انہوں نے کہا کہ کینسر کی ادویات بنانے والی کمپنی لوسٹک کے ساتھ ایم او یو سائن کر رہے ہیں اس سے سستی ادویات ملنے کی امید ہے سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ پاکستان میں صاف پانی کا بہت مسئلہ ہے اس سے ہیپاٹائٹس کا مرض بڑھ رہا ہے پاکستان میں تینوں قسم کے ہیپاٹائٹس کے مریض بہت زیادہ ہے ہیپاٹائٹس اے کا علاج ہے مگر دیگر کا علاج نہیں ہے ہیپاٹائٹس کے لئے سواڈی دوائی رجسٹرڈ کی ہے اس کے علاوہ پیدا ہونے والے بچہ کو لگنے والے ٹیکوں میں ہیپاٹائٹس سے بچاﺅ کی مقدار شامل کررہے ہیں جس سے بچے اس مرض سے محفوظ رہ سکے گے سینیٹر اعظم خان سواتی کی جانب سے پولیو کے خاتمہ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر مملکت صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں پولیو موجود ہیں کے پی کے کے وزیر اعلی نے پولیو کے خاتمہ کے حوالے سے ملاقات کی ہے پاکستان میں پانچ میں سے دو کیسز کے پی کے میں ہے تمام صوبائی حکومتیں پولیس کے خاتمہ کے لئے اقدامات کر رہی ہے کے پی کے حکومت تسلی بخش کام کر رہی ہے اس کو مل کر دور کرنا ہو گا انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پولیو کے کیسز کم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے پولیو کے ڈوس بھی کم دیے جا رہے ہیں۔ پولیو کے پروگرام کو وزیراعظم لیول سے لے کر ڈی سی او لیول تک مانیٹر کیا جاتا ہے دنیا میں پولیو کا اگر کوئی کیسز رونما ہوتا ہے تو اس کے جنیٹک کا پتا نہیں ہوتا کے پی کے حکومت کے اقدامات کی وجہ سے پشاور میں پولیو ختم ہونے کی توقع ہے اس کا ہر قسم کا ڈیٹا موجود ہے سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ پنجاب میںڈینگی کے کیسز کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں اس پر وزیر مملکت صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ راولپنڈی کے ایک علاقے میںڈینگی کا وائرس موجود تھا ڈبلیو ایچ اے کی ٹیم بلوائی تو ان کی مدد سے ان کے علاقے سے ڈینگی کے مچھر کو ختم کرنے میںکامیاب رہے ڈینگی کی ملک بھر میں پانچ لیپ کھولی تھیں ہر قسم کی گائیڈ لائن فراہم کی گئی ہے ڈینگی مرض کو کم کرنے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں نے کام کرنا ہے ڈینگی کے حوالے سے این آئی ایچ اور صوبائی دارالحکومت میں سہولت موجود ہے سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ سوائن فلو سے کے پی میں ہونے والی ہلاکتیں زیادہ ہوئی ہیں مگر جواب میں کم بتائی گئی ہیں سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ لوگوں کو مختلف قسم کی بمیاریاں ہوتی ہیں این آئی ایچ سے تصدیق کرواتے ہیں کہ کس بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے سینیٹر احمد حسن نے وزیر مملکت سے پوچھا کہ میں ٹی بی کے حوالے سے کتنے افراد رجسٹرڈ ہوتے ہیں وزیر مملکت نے جواب دیا کہ کے پی کے میں مجموعی طور پر ٹی بی کے ستر ہزار مریض ہیں اس میں اضافہ کی وجہ ایم ڈی آر ہے ٹی بی قابل علاج مرض ہے لوگوں کو ادویات مرض کے خاتمے سے پہلے چھوڑ دیتے ہیں ٹی بی کا علاج سو فیصد فری ہورہا ہے کے پی کے میں ٹی بی پروگرام تین اطراف سے چل رہا ہے صوبائی حکومتوں کو اپنے پی سی ون تیار کرنے چاہیے ادویات میں اضافہ کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں بارہ کیس رجسٹرڈ ہیں حکومت حم امتناعی ختم کرنے کی درخواست کی لیکن ختم نہیں ہوسکا دس مارچ کیس کی تاریخ ہے پاکستان کو ٹی بی مرض کو کم کرنے کے حوالے سے میڈل بھی دیا جارہا ہے