اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ماہرین نفسیات ڈپریشن کا علاج کرنے کیلئے ان گنت طریقے اپناتے ہیں تاہم یہ طریقہ شائد ان کے ذہن میں بھی نہیں آیا ہوگا جو کہ ایک امریکی خاتون کے ذہن میں آیا۔خاتون کے پارٹنر شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار تھے اور اس کیلئے ڈاکٹرز کے مشورے پر ادویات لینے سے بھی انکاری تھے۔انہیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ ڈپریشن لاعلاج ہے تاہم گھر میں آنے والے ایک بلی کے بچے نے ان کی دنیا ہی بدل کے رکھ دی۔خاتون نے اس سلسلے میں نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح ان کے پارٹنر جوکا ڈپریشن ان کی زندگی کو تباہ کررہا تھا۔جو کو ڈپریشن کے یہ دورے مہینے، دو مہینے کے بعد پڑتے تھے۔ایسا جب شروع ہوتا تھا تو وہ اپنی پارٹنر میں دلچسپی کھو دیتے تھے۔صبح اٹھتے ہی نائٹ گاﺅن پہن کے وہ کھڑکی میں کھڑے ہوجاتے اور خلاﺅں میں گھورنا شروع کردیتے تھے۔جو کے اس دوروں کے دوران ایسا بھی ہوتا تھا کہ جب ان کی پارٹنران کی دلجوئی کے خیال سے ان کیلئے پسندیدہ چاکلیٹ چپ آئس کریم لاتیں تووہ بھی انہیں کوئی خوشی نہ دے پاتی اور عموما تو وہ اس جانب دیکھتے بھی نہیں تھے۔صورتحال بتدریج تبدیل ہونے لگی اور جو کی پارٹنر نے صرف اپنے لئے آئس کریم لانا شروع کردی۔ دیگر امور میں بھی وہ جو کو نظر انداز کرنے لگیں تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ جو کی کیفیت سے بھی سخت پریشان تھیں۔اسی دوران انہیں ایک بلی کا بچہ گھر لانے کا خیال آیا۔جو نے بلی کا بچہ گھر لانے کے سلسلے میں بحث تو کی تاہم زیادہ رکاوٹ پیدا نہ کی۔اس کے بعد بلی کا بچہ گھر آگیا۔ جو اس وقت گھر سے باہر تھے اور پھر جوکام ماہرین نفسیات نہ کرسکے تھے، ایک ننھے سے بلی کے بچے نے کر دکھایا۔جو کے چہرے پر کئی ماہ بعد مسکراہٹ دیکھنے کو ملی۔یہ مسکراہٹ اس خوشی کی غمازی کرتی تھی جو کہ ان کی آنکھوں سے بھی جھلک رہی تھی۔ اگلی صبح آنکھ کھلنے پر جو کے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ یہ تھا کہ بلی کا بچہ کدھر ہے۔جو نے بلی کے بچے کو سیڈی کا نام دیا اور پھر جو نے ڈاکٹر کی تجویز کردہ اینٹی ڈپریسنٹ بھی لینا شروع کردی۔اب سیڈی، جو اور ان کی پارٹنر کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔سیڈی ان کے درمیان رابطے کے پل کا کام بھی کرتا ہے اور ان کی خوشیوں کا مرکز بھی ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں