لاہور (نیوز ڈیسک) یہ دعویٰ عام سننے کو ملتا ہے کہ ”یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے“ تاہم ان کے اس دعوے میں اب شک کی گنجائش نکل چکی ہے کیونکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ ذہنی پختگی کا عقل سے کوئی تعلق نہیں۔ بہر حال اگر کوئی شخص آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا دکھائی دے تو اپنے شک کا اظہار اس کے منہ پر کرنے کے بجائے اس میں مندرجہ ذیل خاص علامات تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔
ٹیکنالوجی کی ترقی سے جہاں ہر کام تیز سے تیز تر رفتار سے ہورہا ہے، وہیں انسان کے اندر سے صبر کرنے اور برداشت کی صلاحیت ختم ہورہی ہے۔ اسکی مثال بہت سادہ سی ہے۔ پہلے لوگ خط لکھ کے مہینہ بھر جواب کا انتظار کرتے تھے تاہم اب ٹیلی فون، ای میل کی بدولت یہ جواب منٹوں میں وصول کیا جاسکتا ہے ، ایسے میں کوئی شخص کیونکر خط لکھ کے مہینہ بھر انتظار کی کوفت میں رہنا چاہے گا؟ اس کے باوجود بھی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انتظار کرنے اور تحمل سے کام لینے کا مادہ پیدا ہونے لگتا ہے۔ اگر آپ کو یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ کا پسندیدہ برانڈڈ سوٹ سٹاک سے ختم ہوچکا ہے اور آپ کا آرڈر نئی کھیپ میں لکھا گیا ہے، اس لئے مہینہ بھر انتظار فرمائیے اور آپ نے آرڈر منسوخ کرنے کے بجائے خوش اسلوبی سے اسے قبول کرلیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ کے اندر عمر کے ساتھ ساتھ ذہنی پختگی بھی آرہی ہے۔
دوسروں کو سننے کیلئے ضروری ہے کہ فرد کے اندر خاموش ہونے کی عادت پیدا ہو اور یہ عادت اسی وقت آتی ہے جب انسان کے اندر تجربہ اسے خاموشی کی قوت سے آگاہ کرتا ہے۔ آپ کی ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوتی ہے جو تحمل سے آپ کی گفتگو سنتا ہے۔ اس دوران نہ تو وہ آپ کے لباس، بالوں کے انداز پر اپنی توجہ قائم کرتا ہے اور نہ ہی یہ بیتابی ظاہر کرتا ہے کہ وہ آپ کی گفتگو ختم ہونے کا بیتابی سے منتظر ہے تو اس شخص کی عزت کیجئے کیونکہ یہ بھی ذہنی پختگی کا ایک اہم ثبوت ہے۔
نوجوانی کے جوش میں ضد شخصیت کا خاصہ بن جاتا ہے۔ اپنے ماحول کو اپنے مطابق رکھنے کی خواہش عمر کے ساتھ ساتھ دم توڑنے لگتی ہے۔ اس کی وجہ اس حقیقت کو قبول کرنا ہوتا ہے کہ حالات و واقعات پر انسان کا قابو نہیں ہے، اس لئے وہ ہر چیز کو اپنی منشاءکے مطاق نہیں چلا سکتا ہے۔ یہ ادراک ہوجائے تو نقصانات پر پریشانی کے بجائے حقیقت سمجھ کے قبول کرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہونے لگتا ہے۔ سوچ میں یہ تبدیلی عمر نہیں بلکہ مشاہدے کا تحفہ ہوتی ہے اور ایسے شخص کو یقینی طورپر پختہ ذہن کا مالک سمجھا جاسکتا ہے۔
عام طور پر نوجوانی میں اپنی جسمانی و نفسیاتی خواہشات کو ہی محبت کا نام سمجھ لیا جاتا ہے۔ حقیقت میں محبت کا جذبہ یہ نہیں ہے مگر اس کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب انسان جوانی کے جوشیلے دور سے آگے بڑھتا ہے، اس کی توانائی صلاحیتیں، تجربے کے عوض خرچ کسی حد تک خرچ ہوچکی ہوتی ہیں، اس وقت محبت کے اصل فلسفے کو بھی ذہن قبول کرلیتا ہے۔
باشعور شخص ہی دنیا کی حقیقت اور اپنی بے بس حیثیت کو جان سکتا ہے۔ ذہنی پختگی انسان کو یہ شعور دیتی ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ کوئی بھی شخص سوفیصد درست نہیں ہوسکتا ہے اور خود وہ بھی ہمیشہ سو فیصد درست نہیں ہوتا ہے۔
عمر بڑھنے کا عقل سے کوئی تعلق نہیں
13
اگست 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں