روتے بچوں سے نمٹنے کے لیے سائنس کی ضرورت نہیں

10  اپریل‬‮  2015

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) چھوٹے بچوں کو سمجھانا یا سنبھالنا بظاہر کافی مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ انہیں یہ سمجھانا کہ وہ جس چیز کیلئے ضد کررہے ہیں، ان کیلئے نقصان دہ ہے بہت مشکل ہے تاہم اگر اس معاملے میں تھوڑی سے ذہانت کا مظاہرہ کیا جائے تو بچوں کو آسانی سے سمجھایا جاسکتا ہے۔ یہ مسئلہ ان خواتین کیلئے زیادہ پریشان کن ہوتا ہے جنہوں نے اپنے ماحول میں چھوٹے بچوں کوپرورش پاتے نہیں دیکھا ہوتا ہے، ایسے میں جب وہ خود پہلی بار ماں بنتی ہیں تو ان کیلئے بچے کو سمجھانا بے حد مشکل ہوتا ہے تاہم اگر کسی بھی مسئلے کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے کہ بچہ اس بارے میں کیا سوچ رہا ہے، تو صورتحال کو باآسانی قابو میں کیا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے کچھ مشورے پیش ہیں جن پر عمل درآمد سے بچوں کے مزاج کو بگڑنے سے پہلے ہی قابو کیا جاسکتا ہے۔
چھوٹے بچوں کے سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہے تاہم ان کے اندر جذبات کم و بیش ویسے ہی ہوتے ہیں جو کہ بڑوں میں ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر ان جذبات کے اظہار کا طریقہ قدرت نے مختلف رکھا ہے یعنی کہ رونا دھونا اور ہنگامہ کرنا۔ اگر آپ کا بچہ کھانے سے پہلے بسکٹ مانگ رہا ہے اور آپ یہ چاہتی ہیں کہ وہ کھانا کھا لے تاکہ اس کی غذائی ضروریات پوری ہوجائیں تو بجائے اس کہ اس امر پر زور دیا جائے کہ وہ بسکٹ نہ کھائے بلکہ کھانا کھائے، اسے یہ کہیں کہ آج کے کھانے میں بسکٹ ہم میٹھے کے طور پر کھائیں گے ، اس لئے جو بچہ کھانا کھائے گا، اسے ہی یہ بسکٹ بھی ملیں گے۔
بچے اگر کھیل کود چھوڑ کے سونے کیلئے تیار نہیں ہیں تو اس کیلئے بھی آپ ان کے کھیل میں ہی کوئی ایسا نیا منظر تخلیق کرسکتی ہیں جس میں بچے کے کھلونے بھی شامل ہوں اور بچے کو سونے پر بھی مجبور کیا جاسکے۔ جیسا کہ اس کے پسندیدہ کھلونے کو دکھا کے کہیں کہ اسے مرمت کی ضرورت ہے ، اور یہ اسی وقت ہی مکینک کی دوکان پر جاسکتا ہے جب آپ اس سے کھیلنا چھوڑ کے سوجائیں۔
بچوں کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں تصور کرسکیں۔ مراد یہ ہے کہ اگر بچے کو کسی کام میں مزہ آرہا ہے تو اس کیلئے یہ سوچنا بے حد مشکل ہوتا ہے کہ وہ یہ کام مستقبل میں دوبارہ بھی کرسکتا ہے یا مستقبل میں کسی دوسرے کام میں اسے اس سے زیادہ مزہ بھی آسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب بچوں کو کھیل کود یا کسی کے گھر سے واپسی کا کہا جائے تو انہیں بے حد غصہ آتا ہے،اس کیلئے بچے کو آئندہ مرحلے پر کسی زیادہ مزیدار کام کی ترغیب دیں تو وہ بخوشی اس کام کو چھوڑنے اور آپ کا حکم ماننے پر رضامند ہوجائیں گے اور بنا ضد پکڑے ہی آپکا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ بچے کے ضد کرنے پر اس کی ضد پوری کرنے سے بچہ مزید ضدی بنتا ہے۔ بچے کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ جب وہ ایسا کرے گا تو اس کی بات مان لی جائے گی، اس لئے ضد کرتے ہوئے بچے کے مطالبہ کو کبھی پورا نہیں کرنا چاہئے۔ اپنے بچے کو روتا ہوئے چھوڑ دینا بہت مشکل ہے، لیکن آپ کا دل پر پتھر رکھ کے انہیں کچھ دیر کیلئے نظر انداز کردینا ہی واحد علاج ہے۔ یہ مت سوچیں کہ بڑے ہونے پر وہ خود ہی ضد چھوڑ دیں گے اس لئے فی الحال ان کی ضد پوری کردی جائے، بچوں کو اگر ضد پوری کروانے کی عادت ہوجائے تو بڑے ہونے پر بھی یہ کسی نہ کسی طور پر عادت باقی رہتی ہے، اس دل پر پتھر رکھ کے بچوں کی ضد کے آگے ہتھیار پھینکنا چھوڑ دیں۔بچے کو کنٹرول کرنا سیکھیں نہ کہ بچے کے کنٹرول میں آیا جائے۔



کالم



تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟


نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…