اتوار‬‮ ، 02 جون‬‮ 2024 

کشمیر ی مودی کے جھانسے میں نہیں آئے

datetime 21  دسمبر‬‮  2014

سرینگر۔۔۔۔۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ماہ پر محیط انتخابی عمل سکیورٹی پابندیوں، قدغنوں، تشدد اور بھاری پولنگ سے عبارت رہا۔کشمیر کی 63 سالہ انتخابی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی بھی اس بار یہاں کے انتخابی ہنگاموں پر غالب تھی۔پارٹی نے ’جمہوری طریقہ پر کشمیر کو فتح‘ کرنے کے لیے 87 میں سے 44 نشستیں جیتنے کا ہدف طے کیا اور اس کے لیے انتہائی مہنگی اور جارحانہ میڈیا مہم چھیڑی۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پانچ ہفتوں میں کشمیر کے نو دورے کیے۔ اس کے علاوہ پارٹی صدر امیت شاہ کے علاوہ ارون جیٹلی، راج ناتھ سنگھ اور دیگر کئی مرکزی رہنماؤں نے متعدد بار کشمیر میں انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا۔بی جے پی نے کشمیر میں مسلمان چہروں کو آگے لا کر واضح عندیہ دیا کہ یہ پارٹی محض حکومت پر قبضہ چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ متنازع مسلم کش عزائم کو خیرباد کہہ چکی ہے۔ مقامی اخبارات میں نریندر مودی کی اس ’بدلتی سوچ‘ پر بھی تبصرے کیے گئے۔
بی جے پی کے جلسوں میں کشمیری نوجوانوں، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد ہوتی تھی۔ بظاہر یہ سب ایک منظم منصوبے کے تحت ہورہا تھا، اور بھارتی میڈیا کا غالب حلقہ یہ اشارے دیتا رہا کہ کشمیر کی نئی حکومت بی جے پی کی ہوگی۔ایک اندازے کے مطابق بی جے پی اور کانگریس کو 40 سے زیادہ سیٹیں ملیں گی
لیکن بیس دسمبر کو انتخابات کا آخری مرحلہ اختتام کو پہنچتے ہی ایسے اندازے سامنے آئے ہیں جن سے لگتا ہے کہ بی جے پی کا ’مشن 44‘ ایک پبلسٹی بلندڑ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ بی جے پی کی موجودہ 11 نشستوں میں اضافہ نہیں ہوگا، لیکن یہ تقریباً واضح ہوچکا ہے کہ اس پارٹی کے لیے جموں سے بھی متوقع نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔علیحدگی پسندوں کی ’بائیکاٹ سیاست‘ پر تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ انھیں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ علیحدگی پسند قیادت کی عدم بصیرت اور مذاکرتی سیاست میں ناتجربہ کاری اپنی جگہ، لیکن کشمیر کے حالیہ انتخابات میں ووٹنگ کا رْخ دہلی کی حکمرانی کا عوامی اعتراف نہیں کہا جا سکتا۔نریندرمودی کہ زیرِ قیادت حکومت ہند کو کشمیر الیکشن سے دو سبق ملے ہیں۔ ایک یہ کہ کشمیر کی غالب اکثریت نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی پر کبھی مطمئن نہیں ہوسکتی۔ دوسرا یہ کہ اقتدار کی سیاست کتنے ہی لبھاونے نعروں میں لپیٹی جائے کسی بھی جماعت کی نظریاتی اساس عوامی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتی۔انتخابات کے پانچوں مراحل میں ووٹروں کی آرا تقریباً یکساں تھیں۔ ہر بار لوگوں نے ہڑتال کی، لیکن ووٹنگ کا جواز یہ پیش کیا کہ وہ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے پولنگ مراکز کا رخ کررہے ہیں۔مودی نے کشمیر کو فتح کرنے کے لیے انتہائی مہنگی اور جارحانہ میڈیا مہم چھیڑی
بھارتی میڈیا اور بعض اداروں کے ایگزٹ پول کے مطابق نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو کل ملا کر 50 سے زائد نشستیں حاصل ہوں گی جبکہ ایک اندازے کے مطابق بی جے پی اور کانگریس کو 40 سے زیادہ سیٹیں ملیں گی۔بی جے پی اور کانگریس بھارت کی قومی جماعتیں ہیں اور دونوں کا موقف یہ ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔اس کے برعکس نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی علاقائی جماعتیں ہیں اور دونوں الگ الگ لہجوں اور الفاظ میں کشمیر کی خود حکمرانی کی وکالت کرتی ہیں۔دونوں تنظیمیں پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل میں ایک اہم فریق مانتی ہیں اور یہاں کی مسلح قیادت کے ساتھ بات چیت کے حق میں ہیں۔اگر ان انتخابات میں ان ہی دو جماعتوں کو سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں تو ووٹ کی سمت صاف ظاہر ہے۔ کم از کم یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ ووٹ کشمیر کی بھارتی وفاق سے آئینی آزادی کے لیے دیا گیا۔
نریندر مودی کا کشمیر ماڈل انتخابی فتح کی جلدبازی میں بنایا گیا تھا لہذا اس کی ناکامی یقینی تھی
فی الوقت کشمیر کی مقامی سیاست مکمل آزادی، بھارتی کنٹرول کے تحت آئینی خودمختاری اور بھارت کے ساتھ انضمام کی نظریاتی تثلیث پر مشتمل ہے۔کشمیر کی تاریخ اور عوام کا مزاحمتی مزاج دیکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ بھارتی وفاق میں کشمیر کا مکمل انضمام کشمیر کا مقبول سیاسی نعرہ نہیں بن سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی جیسی سخت گیر جماعت نے بھی کشمیر میں اس نعرے سے احتراز کیا اور ووٹروں کو تعمیرو ترقی اور آسودگی کے خواب دکھائے۔سماجی رضاکار عبدالقیوم کہتے ہیں: ’سیاسی مستقبل اپنی مرضی سے طے کرنے کی خواہش یہاں اس قدر گہری ہے کہ اگر آپ اس خواہش کو فوجی قوت سے دبائیں گے، تو یہ دوسرے ذرائع سے سر اْبھارے گی۔‘مبصرین کا کہنا ہے کہ نئی حکومت جو بھی ہو کشمیر کی 87 رکنی اسمبلی میں علیحدگی پسندی اور نیم علیحدگی پسندی کی ہی گونج ہوگی۔ ان زمینی حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ نریندر مودی کا کشمیر ماڈل انتخابی فتح کی جلدبازی میں بنایا گیا تھا لہذا اس کی ناکامی یقینی تھی۔



کالم



صرف ایک زبان سے


میرے پاس چند دن قبل جرمنی سے ایک صاحب تشریف لائے‘…

آل مجاہد کالونی

یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے‘ میرے ایک دوست کسی…

ٹینگ ٹانگ

مجھے چند دن قبل کسی دوست نے لاہور کے ایک پاگل…

ایک نئی طرز کا فراڈ

عرفان صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ یہ کراچی میں…

فرح گوگی بھی لے لیں

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں‘ فرض کریں آپ ایک بڑے…

آئوٹ آف دی باکس

کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…