اسلام آباد۔۔۔۔حالیہ کچھ سالوں میں پاکستانیوں نے بحیثیت صارفین اپنی ترجیحات میں تبدیلی کرتے ہوئے قدرتی کھانوں کے بجائے کمرشل طور پر تیار کیے گئے پراسسڈ کھانوں پر انحصار کرنا شروع کردیا ہے، اور اس کی قیمت نہ صرف ہماری صحت ہے، بلکہ کھانے کے معاملے میں ہمارا کلچر اور روایات بھی ہیں۔مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں ہم اپنے مہمانوں کو چائے، بسکٹ، اور نمکو پیش کیا کرتے تھے۔ لیکن پچھلی دو دہائیوں میں مڈل کلاس گھرانوں نے اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع پراسس کی گئی چیزوں سے کرنی شروع کردی ہے۔حال ہی میں میرا ایک ڈنر پارٹی میں جانا ہوا، اور وہاں میزبان نے میرے سامنے ٹن پیک میں آ م کا ملک شیک پیش کیا۔ میں نے کہا کہ ٹیبل پر جو تازہ پھل ا رام کر رہے ہیں، ان کا ملک شیک اس سے زیادہ اچھا بن سکتا تھا، تو میزبان کو ایک لحظے کے لیے دھچکا لگا اور اس نے کہا، ‘لیکن اس کا ذائقہ زیادہ اچھا ہے’۔ایک اور دوست کے گھر میرے سامنے کالی چائے خشک دودھ کے ساتھ پیش کی گئی۔ میں نے جب تازہ دودھ کے لیے کہا تو دوست نے خوشدلی کے ساتھ میری خواہش پوری کرتے ہوئے کہا ‘ویسے خشک دودھ کی چائے زیادہ اچھی بنتی ہے’۔اس سے بھی زیادہ عام مہمانوں کے سامنے ٹھنڈی کوکا کولا پیش کرنا ہے۔پراسسڈ فوڈ کمپنیوں نے اشتہاروں کے ذریعے اینرجی اور ریفریشمنٹ کو ایک برانڈ امیج بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے انہیں اپنی پراڈکٹس کے لیے نئے خریدار ملتے ہیں۔کوکا کولا اس سال پاکستان میں اپنی گروتھ میں دو ہندسوں کی شرح سے ترقی کی امید کر رہی ہے۔ پیپسی کولا پاکستان کو اپنی دنیا بھر میں ٹاپ ٹین مارکیٹس میں شمار کرتی ہے، جبکہ ماؤنٹین ڈیو کی فروخت دنیا میں سب سے زیادہ امریکہ میں اور دوسرے نمبر پر پاکستان میں ہوتی ہے۔