نئی دہلی ۔۔۔۔بھارت میں کچھ طلبہ نے ایک دلچسپ دعویٰ کیا ہے کہ یونیورسٹی کے امتحانات میں نقل کرنا ان کا جمہوری اور پیدائشی حق ہے۔ایک دبلا پتلا اور منتشر شخص ریاست اترپردیش میں اپنی یونیورسٹی کے باہر ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑے ہوئے کھڑا ہوا ہے اور مجھے کہتا ہے: ’نقل کرنا ہمارا پیدائشی حق ہے، یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔‘بھارت کے اس حصے میں یونیورسٹی کے امتحانات کے نظام میں بدعنوانی عام ہے۔ امیر طلبہ امتحانوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے رشوت کا سہارا لیتے ہیں۔پھر طلبہ کی ایک ایسی قسم بھی ہے جو مقامی طور پر اپنے سیاسی تعلقات کی وجہ سے اتنے بااثر ہیں کہ ممتحن انھیں چھونے کی ہمت نہیں کرتے۔
میں نے یہ بھی سنا ہے کہ یہ مقامی بدمعاش کبھی کبھی کمر? امتحان میں اپنی میزوں پر چْھرے چھوڑ کر جاتے ہیں۔ یہ ممتحن کے لیے ایک اشارہ ہے کہ ’مجھے کچھ نہ کہنا۔۔۔ ورنہ۔‘تو اگر امیر یا سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے طلبہ امتحان میں نقل کر سکتے ہیں تو غریب طلبہ پوچھتے ہیں کہ وہ کیوں نہیں کر سکتے؟غریب طلبہ اور بھی مسائل بتاتے ہیں۔ جب میں مغربی اترپردیش میں کام کرتا تھا تو مجھے ایک شخص سنگھ یونیورسٹی کے کیمپس کی ایک کینٹین میں لے گیا۔ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئی آوارہ کتے کو لات مار کر انھوں نے سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔دھواں اڑاتے ہوئے اس نے مجھے کہا: ’بھارت کا یونیورسٹی نظام بحران میں ہے۔ ہر سطح پر نقل کی جاتی ہے۔ داخلے اور امتحان میں اچھے نتائج حاصل کرنے کے لیے طلبہ رشوت دیتے ہیں۔ تحقیق کرنے والے طلبہ بھی اپنے مقالے پروفیسروں سے لکھواتے ہیں۔ اور پروفیسر بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ وہ نقلی جریدوں میں مضامین شائع کرتے ہیں۔‘نقل کرنے سے انکارکرنے والے کئی طلبہ یونیورسٹی کے داخلہ امتحانات پاس کرنے کے لیے رات بھر پڑھتے رہتے ہیں مجھے سنگھ سے ہمدردی تھی۔ ایک موقعے پر اتر پردیش کے ایک کالج میں رجسٹرار نے ماسٹرز میں پڑھنے والے طلبہ کے مقالے کسی دوسرے کالج کے طلبہ کو مارک کرنے کے لیے بھیج دیے۔ ایسی چیزیں یہاں عام ہیں، لیکن اس کیس میں سکول کے طلبہ نے ماسٹرز کے طلبہ کے پیپر مارک کیے۔
کچھ دیر پہلے میں نے اتر پردیش میں ایک مشہور کالج کے خواتین ہاسٹل میں پنکی سنگھ کے ساتھ اس موضوع پر بات چھیڑی۔ انھوں نے کہا: ’میں تمھیں تعلیم کے بارے میں بتاتی ہوں۔ نصاب کمزور ہے، اور جب لیکچررز مناسب طریقے سے آپ کو نہیں پڑھائیں گے تو آپ کو پرائیویٹ ٹیوشن پڑھنا پڑتی ہے یا پھر رٹا لگانا پڑتا ہے۔‘تاریخ پڑھنے کے پہلے سال میں میں نے صحیح طریقے سے پڑھنے کی کوشش کی لیکن مجھے استاد نے کہا کہ ’بازار میں ملنے والی نوٹس کی کتاب خریدو۔‘جب میں اس بات چیت پر غور کرتا ہوں تو میرے ذہن میں اترپردیش کی یونیورسٹیوں کی تصاویر سامنے آتی ہیں۔ میری یادداشت میں دیمک زدہ کتابیں، ٹپکتے ہوئے ہوسٹل اور بنجر میدان نظر آتے ہیں۔جب لیکچررز مناسب طریقے سے نہیں پڑھائیں گے تو آپ کو پرائیویٹ ٹیوشن پڑھنا پڑتی ہے یا پھر رٹا لگانا پڑتا ہیاور پھر مجھے چاروں طرف دولت مندی کی نشانیاں یاد آتی ہیں۔ پرنسپلوں کے تین منزلہ مکانات اور مہنگی جیپیں، بھرپور شاپنگ مال اور اس علاقے کی کچھ یونیورسٹیاں جو واقعی عالمی معیار کی تعلیم فراہم کرتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ جب 90 کی دہائی میں اترپردیش میں منعقد ہونے والے نقل کرنے والوں کے حامیوں نے جلسے کیے تو ریاست کے وزیر اعلیٰ نے ان کے مطالبات قبول کر دیے اور نقل کے خلاف قانون منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے طلبہ کو نقل کرنے کی اجازت دے دی۔بھارتی وزیراعظم مودی کا نقط? نظر مختلف ہے۔ وہ نظام کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے دور میں اعلیٰ تعلیم کے لیے قواعد و ضوابط کا نظام بنایا گیا ہے۔حالیہ پانچ سالہ منصوبہ میں یونیورسٹیوں کی فنڈنگ میں 20 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔لیکن اس قسم کی اصلاحات اونٹ کے منھ میں زیرہ کے مترادف ہیں۔ تعلیم کی فراہمی ریاستوں کے بجائے مرکزی حکومت کا کام ہے اور اتر پردیش جیسی ریاستیں صوبائی یونیورسٹیوں میں مناسب طریقے سے سرمایہ کاری نہیں کر رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی طلبہ کو جدید تعلیم کی دوڑ میں پیچھے رہ رہے ہیں۔ نقل کرنے کا حق کوئی عجوبہ نہیں ہے، بلکہ یہ آج کے بھارت پر ایک طنزیہ تبصرہ ہے۔
بھارت میں طلبہ نقل کرنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں
11
نومبر 2014
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں