سینئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی اپنے آج کے کالم ’’عمران خان نے جنرل باجوہ کو کیا کہا؟میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ایک بڑے ٹی وی چینل سے تعلق رکھنے والے اینکر پرسن نے چند روز قبل ایک ٹاک شو میں انکشاف کیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جب اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف تعینات کیا تو جنرل باجوہ وزیراعظم سے ملنے گئے، اُن کو سیلوٹ کیا اور اُن کو اپنی خدمات پیش کیں۔
پھر جنرل باجوہ نے وزیراعظم نواز شریف سے مخاطب ہو کر کہا You are my boss (آپ میرے باس ہیں) آپ جو حکم دیں گے ہم اُس کی تعمیل کریں گے اور جب آپ ہم سے کوئی رائے لیں گے تو ہم آپ کو اپنی Inputدیں گے۔ اینکر نے کہا کہ آرمی چیف نے وزیراعظم کو پہلی میٹنگ میں اپنا اعتماد دیا لیکن اس کے بعد پاناما کیس سامنے آ گیا، جہاں سے بات بگڑی۔ اینکر کے مطابق پاناما کیس کے بعد جب پاناما جے آئی ٹی ٹی تشکیل دی گئی تو وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی میں شامل دو بریگیڈیئرز کے حوالے سے جنرل باجوہ سے کہا کہ آپ کے بریگیڈیئرز کام خراب کر رہے ہیں، اُن کو ذرا سمجھائیں۔ اینکر نے مزید کہا کہ اس پر جنرل باجوہ نے اسحاق ڈار اور ایک اور صاحب جو آرمی چیف سے اس موضوع پر ملنے آئے تھے، کو بڑے واضح انداز میں کہہ دیا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ جانے اور آپ جانیں، یہ آپ کا کام ہے، اس میں مَیں کوئی کردار نہیں ادا کروں گا۔ نہ ایک طرف نہ دوسری طرف۔ اینکر کے مطابق اس کے بعد حالات خراب ہو گئے۔اینکر نے مزید انکشاف کیا کہ جب عمران خان وزیراعظم بن گئے اور جنرل باجوہ اُن سے پہلے ملاقات کرنے آئے تو وزیراعظم عمران خان نے بڑی بے تکلفی سے جنرل باجوہ سے کہا کہ اب آپ ہمارے ’’پارٹنر‘‘ ہیں۔
اس کے جواب میں آرمی چیف نے وزیراعظم عمران خان سے کہا:نہیں سر! آپ میرے باس، میرے چیف ایگزیکٹو ہیں اور میں آپ کا ماتحت ہوں۔ اس ٹاک شو کے میزبان نے یہ بات واضح کی کہ اینکر صاحب نے جو بات بتائی ہےوہ اُن کی معلومات ہے نہ کہ تجزیہ۔ جس اینکر نے ٹی وی کے ذریعے یہ انکشاف کیا وہ نہ صرف اُن اینکرز میں شامل تھے جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کا مختلف ٹی وی چینلز کو دیا جانے والے پہلا مشترکہ انٹرویو کیا بلکہ حال ہی میں آرمی چیف سے بھی ملاقات کرنے والے اینکرز میں بھی شامل تھے۔
ٹاک شو میں اس بات پر کوئی تبصرہ نہ کیا گیا کہ آخر وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف سے یہ کیوں کہا کہ آپ اب حکومت میں ہمارے پارٹنر ہوں گے۔ بہرحال ایک بات ثابت ہوئی کہ عمران خان کی حکومت کو اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔گزشتہ پانچ ماہ کی تحریک انصاف کی حکومت نے بہت سوں کو مایوس کیا ہے لیکن مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ریاستی ادارے اب بھی تحریک انصاف کی حکومت کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔
بہت سوں کو حیرانی ہے کہ تحریک انصاف بغیر تیاری کے حکومت میں آگئی لیکن امیدیں اب بھی قائم ہیں کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان کو مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف حکومت کے اہم حمایتی بھی مانتے ہیں کہ عمران خان کی ٹیم سلیکشن اچھی نہیں، پنجاب کے حالات درست نہیں، کئی وزراء اپنی ہی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود عمران خان کے پاس کامیاب ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں۔
دوسری طرف اپوزیشن بھی خان صاحب کو موقع دینا چاہتی ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو سب سے زیادہ خطرہ اپنے آپ سے ہے۔ جو Advantagesعمران خان کی حکومت کو میسر ہیں، وہ ماضی میں شاید ہی کسی دوسری سول حکومت کو حاصل رہے ہوں۔ ان حالات سے عمران خان کی حکومت کو پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور ایسے اقدامات اور رویوں سے پرہیز کرنا چاہئے جو سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنے انتخابی منشور میں دیئے گئے عوامی ایجنڈے کے حصول سے دور کر دیں اور سارا وقت لڑائیوں اور بے کار کی سیاسی تلخی میں ہی گزر جائے۔