معروف کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے آج کے کالم ’’پہلے ڈالر پھر ڈار میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔آج کی دنیا یک قطبی ہے۔ اس دنیا میں معیشت کو مضبوط کرنا ہے تو ڈالر کی قدر کو پکڑنا ہوگا۔ اپنی کرنسی کو مضبوط کریں گے تو تب ہم سیدھی راہ پر چڑھیں گے مگر ہماری ترجیح ڈالر نہیں ڈار ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ پہلے ڈالر کو پکڑتے اور پھر بعد میں اسحاق ڈار کو پکڑتے مگر ہم الٹا ڈار کو پہلے پکڑ رہے ہیں اور اسے کہہ رہے ہیں کہ تم نے روپے کو مضبوط کیوں نہ کیا،ڈالر کو کیوں پکڑ کے رکھا؟
واہ رہے تضادستان تیری بوالعجبیاں! کل کے ہیرو کو آج کا ولن اور ولن کو ہیرو بنانے کاہنرکوئی ہم سے سیکھے۔اسحاق ڈار نہ میرے واقف کارہیں اور نہ میری ان سے زیادہ ملاقات ہے حتیٰ کہ انہوں نے بطور صحافی کبھی مجھے انٹرویو تک بھی نہیں دیا مگر میں زمانے کی نیرنگیوں پر حیران ہوں۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ہر طرف ڈار صاحب کے کارناموںکا چرچا تھا۔ انہوں نے ڈالر کو سوروپے تک باندھا توہرطرف واہ واہ کا شور تھا۔ میرے پسندیدہ شیخ رشید بھی اس معاملے میںان سے شرط ہار گئے تھے۔ ان کے بارے میں غلغلہ یہ تھا کہ وہ اعداد و شمار کے ایسے جادوگر ہیں جو انہونی کوہونی کرکے دکھا دیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کئی سال تک انہوں نے ڈالر کی قیمت کے آگے بند باندھے رکھا۔اصولی طور پر شخصی لڑائیوں کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہئے۔ پالیسیوں پر بات کرنی چاہئے۔ ماضی کو چھوڑ کر مستقبل کی طرف جانا چاہئے۔ اسحاق ڈار کی جائیداد کی قرقی کا معاملہ طے ہو رہاہے۔ کیا واقعی ہماری ترجیح یہی ہونی چاہئے، کیاواقعی ڈارکے معاملے سے نمٹ کر ڈالر کی طرف جانا چاہئے یا پھر اس کے برعکس ہونا چاہئے؟ایک وقت تھا کہ ڈار صاحب کی تعریف و توصیف میں صفحے کالے کئے جارہے تھے۔ پاکستان کو دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شمار کیا جارہا تھا۔ موڈیز، اسٹینڈرڈ اینڈ پور کی ریٹنگ میں پاکستان اوپرسے اوپر جارہا تھا۔ بجلی بن رہی تھی، قرضے مل رہے تھے، سی پیک پر معاہدے طے پا رہے تھے۔
ڈارصاحب کے اس دور ِ قصیدہ خوانی میں بھی میرے جیسے سودائی کے دوچار تنقیدی فقرے مل جائیں گے وگرنہ اس وقت تو یکطرفہ ٹریفک چل رہی تھی۔ ان دنوں ٹریفک ان کے مخالف چل رہی ہے تو اس میں بھی زیادتی نظرآرہی ہے۔ ڈارصاحب نہ فرشتہ تھے اور نہ شیطان ہیں۔وہ انسان ہیں جو غلطیاں بھی کرتاہے اور جو کارنامے بھی انجام دیتا ہے۔ میری نظر میں ڈار صاحب کو بطور انسان ہی دیکھناچاہئے۔میرا معصومانہ سوال یہ بھی ہے کہ اگر ڈار اتنا ہی برا تھا تو اسے آرام سے بیرون ملک کیوں جانے دیا گیا؟
اگر نیشنل بینک کے صدر سعید احمد چمن کو ای سی ایل پر ڈال کر باہر جانے سے روک دیا گیا تھا تو ڈار صاحب کو اجازت دینے کی مہربانی کس نے اور کیوں کی؟ اسی طرح میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر اسحاق ڈار اتنا ہی بے وقوف اورملکی معیشت کے لئے نقصان دہ تھا تو چارسال کے طویل عرصے تک ملکی معیشت اس کے حوالے کیوں کئے رکھی گئی؟ ڈار اگر اتنا ہی نکما تھا تو ادارے اس سے طویل ملاقاتیں کیوں کرتے تھے؟ پس پردہ ملاقاتوں کے لئے ڈارہی کو منتخب کیوں کیا جاتا تھا۔
میرا عاجزانہ سوال یہ بھی ہے کہ ڈار اگر اتنا ہی برا تھا تو پرویز رشید، مشاہد اللہ خان اور فاطمی کو نکلوانے کی بجائے اسے نکلواتے تاکہ ملک و قوم کا صحیح طورپرفائدہ ہوتا اورملک کامعاشی مستقبل محفوظ ہو جاتا۔ڈارغلط تھا یا صحیح ….. کم از کم وہ فیصلےتو کرتا تھا۔ وہ اپنی ذمہ داری لینے سے کتراتا تو نہیں تھا۔ ڈار کچھ کرتا تو تھا۔ قرضے مانگتا تھا، فنڈز کو اِدھر اُدھر کرتا تھا یا جو بھی کرتا تھا۔ وہ کیک کو ایسے کاٹتا تھا کہ یہ سب میں بانٹا جائے۔ وہ طاقتوروں کو کیک کابہت بڑا حصہ تو دیتا ہی تھا مگر وہ مظلوموں، غریبوں کے لئے بھی کیک کے چند ٹکڑے ضرور بچا لیتا تھا۔
اس کی اس تقسیم پر کئی بڑے ناک بھوں بھی چڑھایا کرتے تھے۔ ڈار کرنسی کو ڈی ویلیو کرنے کے سخت مخالف تھے مگراسی حکومت کے دور میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اوروزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا اصرار تھاکہ کرنسی ڈی ویلیو کی جائے، یہی وہ وقت تھا جب معاشی معاملات ہاتھوں سے پھسلنا شروع ہوگئے۔ بڑوں کے مطالبات دھڑادھڑ مانے گئے۔ مالی کیک کو کھا، اڑا دیا گیا۔ بس اسی سے معاشی بحران کا آغازہوا تھا۔ڈار کا قصورمالی نہیں سیاسی تھا۔
وہ وفاداری بدل لیتا، نواز شریف کو چھوڑ دیتاتو اعداد و شمار کاماہر ترین وزیر کہلاتا۔ اسد عمر کی ٹیم کی سربراہی بھی وہی کر رہا ہوتا۔ وفاداررہا تو اب اس کی جائیداد بھی قرق ہورہی ہے۔ واہ بھئی واہ تضادستان…..ڈار بھی پاگل تھا۔ مالیات، سیاست، حکومت اور فوج کے تعلقات اور پیپلزپارٹی اورن لیگ کے تعلقات ہر معاملے میں آگے آگے ہوتا تھا۔ ڈان لیکس کی جلتی آگ پر ٹھنڈا پانی ڈالنے والا بھی ڈار تھا اور ٹویٹ واپس کروانے والا بھی ڈار ہی تھا۔ ظاہر ہے آپ اس قدر پنگے لیں گے تو جوابی وار ہوگا۔
ڈار صاحب اب بھگتیں!باقی رہی قرضوں کی بات۔ آئی ایم ایف سے لینے دینے کی کہانی، سعودیہ، چین اور امریکہ کی امداد وغیرہ وغیرہ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ مجھے وہ گداگر پسند ہے جو دنیا بھر سے میر ےلئے بھیک مانگ کر میرے غریبوںکو کھلائے۔ مجھے وہ گداگر پسند نہیں ہے کہ وہ میرے ہی غریبوں سےروٹی چھین لے، ٹیکس لگادے اور مہنگائی کردے۔ مجھے 70سال سے غیرملکی امداد پر ہی پالا گیا ہے۔ اب میری اس پکی عادت کو اچانک چھڑایا گیا تو میں بیمار ہوجائوں گا۔
یہ بھی عرض ہے کہ غریب کو روٹی چاہئے خودداری نہیں۔ روٹی ملے گی تب ہی خودداری کا احساس پیدا ہوگا۔ خودداری اور خودمختاری امیروں کے اللے تللے ہیں، غریب کا پہلا مسئلہ تو روٹی ہے اس کی طرف توجہ دیں ورنہ باقی سب کہانیاں ہیں۔میں معیشت اورمعاشی پالیسیوں کے بارے میں ماہر نہیں ہوں بس موٹی موٹی باتوں کاعلم ہے، اس لئے مجھے نہیں علم کہ اسحاق ڈار نے ہمیں ڈبویا یا اس نے ہمیں بحران سے نکالا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس نے پاکستان کو لوٹا یا پاکستان کو کچھ لوٹایا؟
اس ابہام کو دور کرنے کے لئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہئے۔ ڈار نے کہاں کرپشن کی ہے کون سا فیصلہ غلط کیا ہے، کہاں گھپلے کئے ہیں، ان کی تفصیل کیوں نہیں سامنے لائی جاتی؟ جب تک یہ نہیں ہوگا اور یکطرفہ بیان بازی اور مقدمہ بازی جاری رہے گی ڈار بدنام تو ہوتا جائے گا مگر اسے تادیر بدنام رکھنا مشکل ہوگا۔ایک وقت تھا کہ ہر طرف شور تھا ڈار اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہے اور پھر کہا گیا ڈار تو شادیاں کرتارہا ہے؟ دونوں میں کون سی بات مانیں کہانیاں تو اور بھی ہیں، ڈار کا نوکر کیوں اور کس نے اٹھایا، اس سے کیا بیان لیا گیا؟ تاریخ اکثر راز اگل دیتی ہے اس لئے الٹے سیدھے کام کرنے والوں کو محتاط رہنا چاہئے۔ ڈار کے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔ کب کرے گی یہ معلوم نہیں مگر کرے گی ضرور…..