کراچی(این این آئی)رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مکمل بلٹ اپ (سی بی یو) کاروں کی درآمدات میں 196 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 9 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں، جس ساتھ ہی آٹو سیکٹر میں شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں کہ آیا مارکیٹ کے حالیہ امیدواروں کی طرف سے نئی گاڑیوں کی درآمدات بڑھ رہی ہیں یا استعمال شدہ گاڑیوں
کی آمد میں اضافہ ہورہا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق بتایا گیا کہ پاکستان آٹوموٹو مینوفکچررز ایسوسی ایشن (پاما) نے بھی نئے امیدواروں کو فراہم کردہ مراعات پر انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بوڈ (ای ڈی پی) سے وضاحت مانگ لی ہے۔ادھر آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشنز (اے پی ایم ڈی اے) کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے تخمینہ کاری کے ماڈل کسٹمز کلیٹریٹ کے درآمدای اعداد شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جولائی سے دسمبر 2020 میں 16 ہزار 126 یونٹس نئی اور استعمال شدہ گاڑیاں آئیں۔سب سے زیادہ شیئر 1000 سی سی تک استعمال شدہ کاروں کا رہا جو 6 ہزار 840 یونٹس تک تھا، جس کے بعد 1301 سے 1500 سی سی تک 2 ہزار 838، 1601 سے 1800 سی سی تک 698 یونٹس درآمد کیے گئے جبکہ 425 جیپس بھی درآمد ہوئیں۔یہ کہ مالی سال 21 کی پہلی ششماہی کے دوران ذاتی بیگیج کے تحت وینز کی درآمدات 502 یونٹس اور 36 یونٹس رہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نیو وہیکل کٹیگری کے تحت ایک ہزار سی سی تک کی کاروں کے 2 ہزار 532 یونٹس درآمد کیے گئے، جس کے بعد 1301 سے 1500 سی سی کے تحت ایک ہزار 520 یونٹس، 1601 سے 1800 سی سی میں 132 یونٹس اور 42 جیپس (4×4) درآمد کی گئیں، یوں مجموعی درآمدی یونٹس 4 ہزار 236 رہے۔اس کے علاوہ جولائی سے دسمبر 21-
2020 کے دوران نئی وینز اور پک اپس کی درآمدات 310 اور 22 یونٹس رہی۔ایچ ایم شہزاد کا کہنا تھا کہ جولائی سے دسمبر 2020 کے دوران نئی گاڑیوں کی درآمدات نے مالی سال 19 اورمالی سال 20 کے درمیان نئی گاڑیوں کے مجموعی مالی سال کے اعداد و شمار کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔واضح رہے کہ آٹو پالیسی 21-2016 کے تحت
نئے امیدواروں کو مراعاتی ڈیوٹی ریجیم کے تحت 100 یونٹس کی درآمدات کی اجازت ہے تاکہ وہ مارکیٹ کو پہلے ٹیسٹ کریں اور صارفین ردعمل کا جائزہ لیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو نئے امیدواروں کی سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ یہ مقامی اسمبلی پر توجہ دینے کے بجائے زیادہ گاڑیاں درآمد کر رہے ہیں جس سے غیرملکی
زرمبادلہ خالی ہورہا ہے، ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ زیادہ طلب کی وجہ سے ان کے پاس بکنگ کے بھی بہت زیادہ آرڈرز ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلرز بھی قیمتوں کے ساتھ تباہی کھیل رہے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پاک سوزوکی موٹر کمپنی لمیٹیڈ کی جانب سے سوزوکی اے پی وی درآمدی گاڑی کی قیمت میں 11 لاکھ روپے
کے اضافے پر حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔دوران گفتگو انہوں نے جولائی سے دسمبر 2020 کے دوران استعمال شدہ کاروں کی درآمدات کی بحالی سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ گاڑیوں کی پرانی شپمنٹس جو عالمی وبا اور کنٹینرز کے مسائل کی وجہ سے جاپان میں پھنس گئی تھیں وہ اب آرہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 برسوں
میں مجموعی درآمدات کے تناظر میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات ابھی بھی بہت کم ہے۔ پاکستان ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق 20-2019 کے درمیان گاڑیوں کی مجموعی درآمدات میں 55 فیصد کی واضح کمی ہوئی تھی اور یہ 19-2018 کی 22 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے 9 کروڑ 90 لاکھ ڈالر رہی تھی۔ایچ ایم شہزاد نے
حکومت پر زور دیا کہ آیا وہ استعمال شدہ کاروں کی تجارتی درآمدات کی اجازت دے یا ان کاروں پر 3 سال کی مدت ختم کرکے اسے 5 سالوں تک بڑھایا جائے۔انہوںنے کہاکہ مقامی صنعت کاروں کی ایڈوانس بکنگ پر بینکوں میں جمع کروائی گئی صارفین کی رقم سے بھاری سود کما کر پیسے بنا رہی ہے ،گاڑیاں 4 سے 5 ماہ میں ڈیلور کی
جاتی ہیں۔اے پی ایم ڈی اے کے چیئرمین نے کہا کہ جنوری 2019 میں حکومت کی جانب سے لیے گئے فیصلے کے بعد استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات دباؤ میں ہے کیونکہ اس کے تحت نئی/استعمال شدہ گاڑی کو آیا ذاتی بیگیج یا تحفہ اسکیم کے تحت درآمد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ڈیوٹی اور ٹیکسز کی ادائیگی خود پاکستانی
شہریوں کی جانب سے انتظام کیے گئے غیرملکی زرمبادلہ سے یا مقامی وصول کنندہ کی جانب سے غیرملکی ترسیلات زر کو مقامی کرنسی میں تبدیلی کے بینک انکیشمنٹ سرٹیفکیٹ کی مدد سے ہوگی۔دوسری جانب ریگل آٹو موبائل کے سی ای او سہیل عثمان کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی نے آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی 2021-2016 کے تحت
مراعات کے مطابق گلوری ایس یو وی 1.5 اور گلوری 1.8 کے 100، 100 یونٹس درآمد کیے تھے جبکہ کمپنی نے تقریباً 20 پرنس 800 سی سی درآمد کی تھی کیونکہ ہم مقامی اسمبلی پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ہماری کمپنی نے ڈیڑھ سال سے کم عرصے میں 2 ہزار 500 سے زیادہ پرنس گاڑیاں رولڈ آؤٹ کیں جبکہ دسمبر 2020 میں اپنی لانچنگ کے بعد سے ہم 350 گلوری ایس یو وی اسمبلڈ کرچکے ہیں۔سہیل عثمان کا کہنا تھا
کہ پلانٹ ایک سنگل 8 گھنٹے کی شفٹ میں 5 ہزار گاڑیوں کو اسمبل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس وقت ہم 3500 سے 4000 ینوٹس پر چلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں یقینی طور پر نئی گاڑیوں کی درآمدات کے بڑھنے پر فکر مند ہوں کیونکہ یہ غیرملکی زرمبادلہ کے نقصان کا باعث بنے گا۔ادھر ماسٹرز موٹرز میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ کمپنی نے آلسون گاڑی کی مقامی اسمبلی متعارف کروانے سے سے قبل سی بی یو کی شکل میں اس کے 50 سے بھی کم یونٹس درآمد کیے تھے۔