کراچی (آن لائن)پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ ایل این جی کی عالمی بحران شروع ہو چکا ہے۔قیمتوں میں زبردست اضافہ کی وجہ سے پاکستان کو فروری میںگیس فراہم کرنے کا ٹینڈر جیتنے والی دونوں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے معذرت کر لی ہے جبکہ دنیا بھر میں متعدد کمپنیاں ڈیفالٹ کر رہی ہیں جس سے
گیس درآمد کرنے والے درجنوں ملک متاثر ہو رہے ہیں۔موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکومت ہنگامی بنیادوں پر دیگرذرائع سے ایل این جی کے حصول کی کوشش کر رہی ہے جبکہ گیس ضائع کرنے والے کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی سپلائی منقطع کر دی گئی ہے جو درست فیصلہ ہے جسکی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ امسال کئی ممالک کو سخت سردی کا سامنا ہے جسکی وجہ سے گیس کی طلب بڑھ گئی ہے جبکہ گیس سپلائی کرنے والے جہازوں کے کرائے میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ایشیاء کے امیر ممالک ہر قیمت پر اضافی گیس خرید رہے ہیں جس سے مارکیٹ پر منفی اثر پڑا ہے۔پاکستان اس صورتحال کا مقابلہ صرف گیس کی خریداری کے طویل المعیاد معاہدوں سے کر سکتا ہے جس سے گیس کی قیمت اعتدال پر اور سپلائی یقینی رہتی ہے جبکہ سپاٹ خریداری کی گنجائش بھی رکھنی چائیے تاکہ جب بین الاقوامی منڈی میں قیمت کم ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔حکومت کو توانائی کی طویل المعیاد پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کوبجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور ایل پی جی مافیا کے حملوں سے نجات مل سکے۔نجی فیکٹری مالکان قدیمی طریقے سے بجلی پیدا کرتے ہیں جس سے بہت گیس ضائع ہوتی ہیں۔ ان پر پابندی درست ہے تاکہ گیس
بچائی جا سکے اور وہ قومی گرڈ سے بجلی خریدیں تاکہ حکومت کے نقصانات میں کمی آ سکے۔دوسری جانب دوسری جانب نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری ( نکاٹی) کے صدر فیصل معیز خان نے پاور ڈویژن کی جانب سے فروری2021سے تمام صنعتی یونٹس کو گیس فراہمی بند کرنے کے فیصلے کی شدید مخالفت کرتے
ہوئے اس اقدام کو غیر دانشمندانہ اور صنعت دشمن اقدام قرار دیا ہے اور وفاقی حکومت، وزیربرائے ترقی ومنصوبہ بندی اسد عمر سے یہ فیصلہ فوراً واپس لینے اور پیداواری سرگرمیوں میں رکاوٹ کا باعث بننے والے فیصلے نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر صنعتکار حکومت کی پالیسیوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے اور مستقبل
میں سرمایہ کاری کرنے سے کترائیں گے۔فیصل معیز خان نے وفاقی وزیربرائے ترقی ومنصوبہ بندی اسد عمر کو ارسال کیے گئے ایک خط میں کہاکہ نارتھ کراچی صنعتی ایریا اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کے حوالے سے ایک خاص مقام رکھتاہے جہاں2500سے زائد چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں کام کر رہی ہیں ان میں سے90
فیصد برآمدی یونٹس ہیں۔ اہم یونٹس میں ٹیکسٹائل اور ٹیکسٹائل سے تیار کردہ مصنوعات، لیدر، فلور ملز، فارماسیوٹیکل، گتے، کھانے پینے، مشروبات، لائٹ انجینئرنگ، صابن، ڈائنگ، بلیچنگ،آئس مینوفیکچرنگ، کیمیکلز، پیکیجنگ، ماربلز، ماچس، برتن، پرنٹنگ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ وفاقی وزیر کو بھیجے گئے خط میں صدر
نکاٹی نے نشاندہی کی کہ صنعتکار برادری نے پیداواری ضرورت کے مطابق بجلی کی عدم دستیابی کے باعث ازخود بجلی پیدا کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی اورکپٹیوپاور پلانٹس لگائے، جنریٹرز خریدے اور پیداواری سرگرمیاں بلاتعطل جاری رکھنے کے لیے صنعتوں میں بجلی پیدا کرنے کے لیے ایک مربوط نظام وضع
کیا جس کے تحت صنعتوں کا پہیہ چل رہا ہے لیکن حال ہی میں پاور ڈویژن کی صنعتوں کوگیس منقطع کرنے سے متعلق سفارشات سامنے آنے کے بعدصنعتکار برادری میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ پاور ڈویژن نے سفارش کی ہے کہ گیس کی مجموعی طلب اور رسد کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یکم فروری 2021 سے تمام
صنعتی یونٹوں کو گیس کی فراہمی بند کردینی چاہیے جو کہ غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ صنعتکاروں کو بجلی کے حصول کے لیے کے الیکٹرک سے بجلی خریدنے اور کے ای کے تمام اخراجات سمیت سسٹم ڈیولپمنٹ چارجز ادا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے جو سراسر غیر منصفانہ اور بلاجواز ہے کیونکہ
صنعتکاروں نے ازخود بجلی پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اپنا سرمایہ لگایا اور اب حکومت صنعتکاروں کے اس اقدام کو سراہنے کی بجائے حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔ حکومت کو صنعتی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے تاکہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے اور صنعتوں میں کام کرنے والے
مزدور بے روزگار نہ ہوں لہٰذا حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور صنعتوں کی گیس منقطع نہ کی جائے بصورت دیگر حکومت کی جانب سے صنعتوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی تباہی ثابت ہوگی اور صنعتکار برادری حکومت کی صنعتی پالیسی پر انحصار کرنا چھوڑ دے گی نیز صنعتکاریہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے انہیں
مستقبل میں وطن عزیز میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے یانہیں۔صدر نکاٹی نے خط میں مزید کہاکہ اگر حکومت اپنے فیصلہ واپس نہیں لیتی تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ صنعتکاروں کو اپنی صنعتوں کے لیے بجلی کہاں سے ملے گی ؟ جبکہ بجلی کے معاملے میں کے الیکٹرک کا محکمہ اوورلوڈ ہے؟ صنعتکار کیسے مکمل طور پر کے الیکٹرک پر
انحصار کرسکتے ہیں؟ ان حقائق کی روشنی میں نارتھ کراچی انڈسٹریل ایریا کے صنعتکار وں نے وفاقی وزیر اسد عمر اور حکومت سے درخواست گزار کی کہ وہ کراچی کے صنعتوں کی بقا کے لیے اپنا فیصلہ واپس لے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ وفاقی وزیر ہماری درخواست پر ضرور غورکریں گے اور اس حوالے سے اپنا ذمہ دارانہ اور قابل ستائش کردار ادا کریں گے۔