اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )پاکستان میں آٹے کی قیمتوں میں اچانک بڑا اضافہ ہونے کی وجہ سے صو بہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں لوگ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔پاکستان فلور ایسویسی ایشن کے ترجمان نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ آمد و رفت اور دیگر مسائل کی وجہ سے گندم مارکیٹ میں کمی ہوئی جسے پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ
اوپن مارکیٹ میں گندم کی قلت اس لیے پیدا ہوئی ہے کیونکہ فیڈ ملز نے 7-8 لاکھ ٹن گندم کی اضافی مقدار استعمال کر لی ہے جو ایسی ہی صورتحال کے لیے ہر وقت محفوظ رکھی جاتی ہے۔ فیڈ ملز کو گندم دینے کا حکومتی فیصلہ غلط تھا۔اگر فیڈ ملز کو 7-8 لاکھ ٹن گندم نہ دی جاتی تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔گزشتہ مالی سال 2018-19ء میں گندم کی پیداوار کا تخمینہ 25.195؍ ملین ٹن لگایا گیا تھا لیکن اصل پیداوار 25؍ ملین ٹن سے کم یعنی 24.7؍ ملین ٹن رہی۔ 2017-18ء میں گندم کی پیدوار 25.076؍ ملین ٹن رہی جبکہ 2016-17ء میں یہ 26.674؍ ملین ٹن تھی۔ گندم کی ماہانہ کھپت 2؍ لاکھ ٹن ہے لہٰذا 24.7؍ ملین ٹن کی مجموعی پیداوار ملکی ضروریات کیلئے کافی تھی۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب میں بھی گزشتہ مالی سال کی گندم کے ذخائر موجود تھے۔ پنجاب میں گندم کا ہدف 4؍ ملین ٹن تھا لیکن دستیاب 3.5؍ ملین ٹن تھی۔پہلے تو بحران نے سندھ سے اس وقت سر اٹھانا شروع کیا جب صوبے کی جانب سے گندم حاصل نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مختلف عہدیداروں کو گندم کی خریداری کے معاملے پر نیب اور دیگر تحقیقاتی اداروں سے تحقیقات کا سامنا تھا اسلئے انہوں نے گزشتہ سال گندم کی خریداری نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سب سے پہلے تو حکومت نے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کے اضافی گندم کے تخمینوں کو دیکھتے ہوئےو دو سے چار لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن گندم کی اصل برآمدات بڑھ کر 6؍ لاکھ 40؍ ہزار ٹن ہوگئی۔