اسلام آباد( آن لائن )وفاقی وزیر اقتصادی امور حماد اظہر نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ ایک سال میں 10 ارب ڈالر کے قرضے واپس کئے ہیں، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 2 سے 3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، بجلی اور گیس کی قیمت نہ بڑھاتے تو ماضی میں بجلی اور گیس کی خریداری کے لئے زیادہ قیمت پر کئے جانے والے معاہدوں کو کیسے پورا کیا جاتا۔
پاکستان میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس وصولی کی شرح 12 فیصد سے زیادہ کبھی نہیں بڑھی،انہوں نے کہا کہ رولز کے مطابق یہ ضروری ہے کہ اگر قرضوں کی شرح مقررہ حد سے بڑھ جائے تو وزارتوں کو اس سلسلے میں دونوں ایوانوں کو بتانا چاہئے کہ کیا وجوہات ہوئیں جن کی وجہ سے ہمیں مقررہ حد سے زیادہ قرضے لینا پڑے ہیں۔ جمعہ کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر مشتاق احمد، سینیٹر جہانزیب جمالدینی، سینیٹر عبدالرحمان ملک اور دیگر ارکان کے سوالات کے جواب میں حماد اظہر نے سینٹ کو بتایا کہ مالی سال 2018-19 کے پہلے چھ ماہ میں ریونیو اکٹھا کرنے کیلئے مقرر کردہ اہداف کے مطابق جس میں ڈائریکٹ ٹیکسز 730.4ارب تھے جبکہ 668.4ارب روپے حاصل کئے گئے سیل ٹیکس کی مد میں 673.6ارب روپے کا ٹاسک تھا اور ان میں سے 688ارب روپے حاصل کئے گئے ایف ای ڈی 108.2 ارب روپے کا ٹاسک ہونے کے بعد 102ارب روپے لئے گئے یوں بالترتیب 1838.5ارب روپے کے ٹارگٹ میں سے 1794.8ارب روپے حاصل کئے گئے دوسری جانب انہوں نے مزید بتایا کہ کے موجودہ اعدادوشمار کے حساب سے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں مالیاتی خسارہ 1922 ارب روپے رہا جو کہ جی ڈی پی کا 5 فیصد بنتا ہے۔مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لئے حکومت نے مختلف اقدامات کئے ہیں جن میں بجلی کے شعبے میں
اصلاحات، نئی اسامیوں کی تشکیل پر پابندی، بیرون ملک دوروں پر وفود کی روانگی کی ممانعت، گاڑیوں کی خریداری پر پابندی اور دیگر اقدامات شامل ہیں۔ بجلی رعایتی پالیسی اور پاور سیکٹر میں اصلاحات کا آغاز بھی شامل ہے اس موقع پر سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ ہم نے جی ڈی پی 5.8پر دی اور اب 2.3پر ہے تقریروں سے کام نہیں چلتا روزگار کیلئے صنعت لگانے کی بات درست ہے مگر ایوان کو بتایا جائے کہ
ایک سال میں کتنی صنعتیں لگائی گئی ہیں جب نوکریوںچ پر پابندی عائد کردی گئی ہے تو ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ کیوں دیاگیا سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے اس موقع پر کہا کہ ہمارا سوال کچھ اور ہوتا ہے اور جواب کچھ اور دیا جاتا ہے وفاقی وزراء ہمارا مذاق نہ اڑائیں اور اب جواب دہ ہیں کہ اور وہ ہر صورت دینا پڑیگا جس پر وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ حکومت نے پہلے نو ماہ کے دوران 35ارب روپے سے
زائد مالیت کے قرضے لئے اور قرضوں کو جی ڈی پی کی شرح کے تناسب میں دیکھا جائے جو عالمی لحاظ سے منظور شدہ طریقہ ہے خسارے پر کمی پانے کیلئے موجودہ حکومت اہم نکات پر عمل پیرا ہے جس میں ریونیو کے بڑے پیمانے پر خرچ کرنے کے عمل کو معقول بنانا نجکاری بڑے پیمانے کے سماجی اخراجات میں اضافے کی مدد سے معیشت کی موثریت اور پیداوار میںبہتر لانا اندرون خانہ بچت
اور سرمایہ کاری میں بڑے پیمانے پر بہتری لانا ہے یوںدسمبر 2018کو بینکوں کے رکے ہوئے قرضہ جات این پی ایل 679.744ملین روپے تھے جن میں سے 77.361 ملین وصول کئے گئے چونکہ بینک ایگریمنٹ کے تحت قرضہ لینے والوں کی فہرست جاری نہیں کی جاسکتی اس لئے ایوان میں پیش کرنے سے قاصر ہیں سال 2019 کے دوران پاکستان نے سعودی عرب سے جو قرضہ لیا اس کی
مالیت 716ملین سعودی ریال ہے جو کہ امریکی ڈالروں کے حساب سے 988ملین ڈالر بنتی ہے گزشتہ چار سالوں کے دوران 2015سے 2019تک حکومت نے 25.598ملین امریکی ڈالر کے بیرونی قرضے لئے۔ پاکستان سٹیزن پورٹل کے ذریعے 44554شکایات میں سے 42222 شکایات کا ازالہ کیاگیا جبکہ 2332شکایات کے ازالہ کیلئے کام جاری ہے ہمیںخوشی ہوتی ہے کہ عوام خزانہ سے متعلق شکایات کے
ساتھ اچھی تجاویز بھی پیش کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال میں پاکستان میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس وصولی میں صرف 2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو اس وقت 11 فیصد ہے اور ابھی ہم ہدف کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ٹیکس وصولی میں 17 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس وصولی کی شرح پاکستان میں کبھی
بھی 15 فیصد نہیں رہی۔ انہوں نے کہا کہ اگلے دو سال میں ہم اسے ساڑھے چار سے چار فیصد تک لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر ایک وقت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس 3 ارب ڈالر رہ گئے تھے لیکن اس کے بعد ان میں اضافہ ہوا ہے اور موجودہ حکومت کے دور میں 2 سے 3 ارب ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ
تحریک انصاف کی حکومت نے 10 ارب ڈالر کے قرضے ایک سال میں واپس کئے ہیں، انہوں نے کہا کہ معیشت کو بحران سے نکالنے کے لئے مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، بجلی اور گیس کی قیمت نہ بڑھاتے تو ماضی میں بجلی اور گیس کی خریداری کے جو مہنگے معاہدے کئے گئے ان کو کیسے پورا کیا جاتا۔ اگر وہ پورا نہ کرتے تو ڈیفالٹ ہو جاتا اور اس سے مہنگائی مزید بڑھ جاتی۔