لاہور(آن لائن) پاکستان میں زرعی مٹی کے لاتعداد نمونوں سے معلوم ہوا ہے کہ ایک جانب تو زرعی زمین میں نامیاتی اجزا کم ہورہے ہیں تو دوسری جانب ان میں قدرتی اجزا مثلاً فاسفورس اور پوٹاشیئم سمیت کئی معدنی اجزا خوفناک حد تک کم ہوچکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی زرعی پیداوار کوششوں کے باوجود بڑھ نہیں پارہی۔اس ضمن میں کئی برس تک بالخصوص صوبہ پنجاب کے کھیتوں سے
مٹی کے نمونے دیکھے گئے تو معلوم ہوا کہ مٹی میں نائٹروجن کی سطح 98 فیصد، فاسفورس کی 90 فیصد، پوٹاشیئم کی کمی 53 فیصد اور زنک کی کمی 70 فیصد تک نوٹ کی گئی ہے۔ اس طرح پورے ملک میں کئی ٹیوب ویل کا سروے کیا گیا اور معلوم ہوا کہ ان کی 66 فیصد تعداد سے لیا ہوا پانی خود زراعت کے لیے موزوں نہیں۔اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت کا محکمہ زراعت کو ایک سروے کے احکامات دیئے جسے ’سوئل سیریز سروے‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں مٹی کے ایسے نمونے دیکھے جاتے ہیں جو مرکزی مٹیریل سے حاصل کیے جاتے ہیں۔اس ضمن میں 1972ء میں پنجاب کو 105 سیریز سروے میں تقسیم کرکے اس کا سروے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2018ء میں ایک اور سروے کیا گیا اور اس بار سوئل سیرز 800 تک جاپہنچی۔ اس ضمن میں حکومتِ پنجاب کے محکمہ زراعت نے ایک تفصیلی ویب سائٹ بھی بنائی جو اگلے چند دنوں میں لانچ کی جائے گی۔ اس کا اہم مقصد صوبہ پنجاب کی زرعی زمین کا نامیاتی آڈٹ کیا جائے گا اور ہر کسان اور ماہرِ زراعت اس ڈیٹا تک رسائی حاصل کرسکے گا۔پنجاب میں علاقائی درجہ بندی یا زوننگ اب 40 برس بعد کی گئی ہے اور اس کے بعد حیاتیاتی اہمیت والے علاقوں (ایکولوجیکل زون) کی تعداد 8 سے بڑھ کر 13 ہوچکی ہے۔ ماہرین نے منڈی بہاء الدین اور ننکانہ کیعلاقوں میں کپاس کے علاقوں میں گنے کی
کاشت روکنے اور درمیانی علاقوں میں چاول کی کاشت محدود کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔مٹی کے ابتدائی نمونوں کو دیکھ کر معلوم ہوا ہے کہ سال 2000ء میں پنجاب کی زرعی مٹی میں نامیاتی مواد کا تناسب 0.75 تھا جبکہ اب وہ گھٹ کر 0.60 پر جاپہنچا ہے۔ پیٹ منرل سوئل مکس ( پی ایم ایم) میں فاسفورس کی شرح 9.85 سے 8.6 پر اگئی ہے۔ مٹی میں پوٹاشیئم کی
اوسط مقدار 236 حصے فی 10 لاکھ سے 90 حصے فی 10 لاکھ تک آچکی ہے جو ایک نمایاں کمی ہے۔ماہرین کے مطابق مٹی میں نامیاتی مادوں کی مقدار کم ہونے سے ہی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوپارہا۔ ماہرین نے بتایا کہ کسانوں کی اکثریت زمین کی زرخیزی بڑھانے والی مصنوعی کھاد اور اجزا خریدنے سے قاصر ہے اور اسی بنا پر مٹی کی نامیاتی زرخیزی تیزی سے کم ہورہی ہے جو اب ایک خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔