اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک ) آڈیٹر جنرل پاکستان (اے جی پی) نے مالی سال 18-2017 کے دوران 44 وفاقی محکموں میں 58 کھرب روپے مالیت کی سرکاری رقم میں مالی بے قاعدگیاں، بد انتظامی اور بے ضابطگیاں ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ 18-2017 میں وفاقی محکموں پر کیے جانے والے اعتراضات گزشتہ برس کے مقابلے کہیں زیادہ یعنی تقریباً 87 فیصد ہیں۔
جبکہ یہی معاملات ایک سال قبل 35 وفاقی محکموں میں 31 کھرب 20 ارب مالیت کے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری رقم کا مالی ضابطہ کار بجائے بہتر ہونے کے مزید بگڑ گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آڈیٹر جنرل نے اس سلسلے میں 60 وفاقی محکموں اور شعبہ جات میں سے 44 کے سرکاری فنڈز کا جائزہ لیا جبکہ ان اداروں میں 10 لاکھ روپے تک کے خرچ کو اس اعداد و شمار کا حصہ نہیں بنایا۔ وزارتوں کا مخصوص آڈٹ: 30 کھرب سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف رپورٹ میں بتایا گیا کہ تقریباً 69 ارب 40 کروڑ روپے کی وصولی کر کے وفاقی فنڈ میں جمع کروادی گئی ہے، مذکورہ آڈٹ رپورٹ کو آئین کے آرٹیکل 171 کے تحت صدرِ مملکت کو ارسال کرنے کے ساتھ پارلیمنٹ میں بھی پیش کردیا گیا۔ آڈٹ رپورٹ میں متعدد محکموں، اداروں اور ان کے بیرونِ ملک متعلقہ اداروں میں کل 39 ایسے کمزور مالی معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی مالیت 57 کھرب 75 ارب روپے ہے جبکہ 82 ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن میں قوانین کے خلاف 24 ارب 75 کروڑ روپے کی بے قاعدہ ادائیگیاں یا اخراجات کیے گئے۔ اس کے ساتھ آڈیٹر جنرل نے 57 کھرب 70 ارب روپے مالیت کے 26 کمزور مالی انتظام کے کیسز پر روشنی ڈالی جبکہ مالی اثاثوں کے خراب انتظام کے ایک ارب 30 کروڑ روپے مالیت کے 22 کیسز کا بھی ذکر کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اے جی پی کی رپورٹ میں وزارت خزانہ اور
اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو کی جانب سے دی گئی 38 کھرب 90 ارب روپے کی ضمنی گرانٹس کے حوالے سے غلط بیانی پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، جو خود وفاقی حکومت کی درست مالی انتظام کے ذمہ دار ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وزارتِ خزانہ نے آئین کی دفعہ 80، 83 اور 84 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان ضمنی گرانٹس کو پرنٹ نہیں کیا جبکہ یہ کل ضمنی گرانٹس کا 92 فیصد حصہ ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے صدرِ مملکت اور
پارلیمنٹ کو اپنی رپورٹ میں آگاہ کیا کہ وزارت خزانہ تمام ضمنی گرانٹس منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی مجاز ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا س کی وجہ سے اتنی بڑی رقم بغیر رپورٹ کیے رہ گئی۔ دوسری جانب اس بارے میں جواب دیتے ہوئے وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا تھا کہ معینہ مدت کے بعد مختلف وزارتوں اور شعبہ جات سے موصول ہونے والی ضمنی گرانٹس کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش کردہ دستاویز کا حصہ نہیں بنایا جاسکا۔