واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا نے دنیا کے تمام ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں برس 4 نومبر تک ایران سے تیل خریدنا بند کردیں بصورت دیگر انہیں امریکا کی جانب سے معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار نے ممالک کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم کوئی رعایت نہیں دیں گے اور واضح کیا کہ ایران کا گھیرا تنگ رکھنا ہماری قومی سلامتی پالیسی کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
ایران، سخت ترین پابندیوں کیلئے تیار ہو جائے، امریکا فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو جوہری معاہدے سے دستبردار کردیا تھا اور ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے لگائی گئیں امریکی پابندیاں دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کیا تھا، اس ضمن میں ایران سے معاشی تعلقات ختم کرنے کے لیے 180 دن کی ڈیڈلائن بھی دی تھی۔ اس لیے اب امریکا کی جانب سے دنیا کے دیگر ممالک پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ امریکی فیصلے پر عملدرآمد کریں، جن میں وہ یورپی ممالک بھی شامل ہیں جنہوں نے امریکا کو معاہدے سے دستبردار ہونے سے روکنے کی سر توڑ کوششیں کیں۔ خیال رہے کہ ایران سے تیل خریدنے والے ممالک میں بھارت جاپان اور چین بھی شامل ہیں۔ امریکا کی ایران پر پابندیاں: پہلے مرحلے میں گاڑیوں اور طیاروں کی صنعت متاثر ہوگی اس ضمن میں یورپی طاقتوں خاص طورسے اپنی کمپنیوں کو ان پابندیوں سے مستثنیٰ رکھنے کے لیے مذاکرات کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن حکام نے اس بات کی تصدیق کردی کہ ڈونلڈ ٹرمپ 180 دن کی ڈیڈ لائن کو موقف پر قائم ہیں جو 4 نومبر 2018 کو ختم ہورہی ہے۔ اس حوالے سے امریکی عہدیدار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر صحافیوں کو آگاہ کیا کہ مجھے یہ کہنا مناسب نہیں لگ رہا کہ صفر رعایت دی جائے گی بلکہ ہم کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دیں گے، انہوں اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ یہ فیصلہ غیر مقبول رہے گا۔ اس ضمن میں انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ ان کے خیال میں جاپان کا موقف اس اعتبار سے آئل درآمد کرنے والے دیگر ممالک سے مختلف نہیں ہوگا، انہوں نے بتایا کہ وہ اس سلسلے میں چین اور بھارت کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکا کی ایران کے خلاف نئی پابندیاں اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ان ممالک کے لیے مشکلات کا باعث ہوگا جو ایران سے تیل خریدتے ہیں، وہ رضاکارانہ طور پر یہ سب کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، تاہم ہم ان سے ان کی پالیسی تبدیل کرنے کا مطالبہ کریں گے۔