تہران(این این آئی)ایران میں قومی تیل کمپنی نے پہلے متنازعہ معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ مذکورہ معاہدہ تیل کے چشموں کو جدید اور دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے نئے (آئی پی سی)) معاہدوں کے سلسلے میں ایرانی کمپنی بریشیا کے ساتھ طے پایا ہے۔ یہ ان معاہدوں کی ایک کڑی ہے جو ایرانی وزارت تیل اور مغربی کمپنیوں کے درمیان طے پائے ہیں اور ان میں ایرانی آئین کی مخالف شقیں شامل ہیں۔ ایرانی پارلیمنٹ کے احتجاج کرنے والے اراکین کے نزدیک یہ معاہدے ایران اور اس کی تیل کی پالیسیوں کے مفاد کے خلاف ہیں۔ایرانی میڈیا کے مطابق تنقید کرنے والے ارکان پالیمنٹ کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں کے تحت تیل کے چشموں کو پھر سے قابل استعمال بنانے ، ان کو جدید بنانے اور ان کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کام کرنے والی غیرملکی کمپنیاں ان چشموں کے تیل کی فروخت میں سے اپنا حصہ حاصل کریں گی۔معاہدے کے تحت بریشیا کمپنی کی وساطت سے 2 ارب 20 کروڑ ڈالر سے اران ، مارون اور یوبال کے علاقوں میں تیل کی ذخیرہ اندوزی کے چار ٹینکوں کو جدید بنایا جائے گا۔بیس سال کے عرصے پر محیط اس معاہدے کے تحت مذکورہ چشموں کی مجموعی پیداوار میں 75 ہزار بیرل کا اضافہ ہوگا۔غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ دستخط کیے جانے والے معاہدوں نے ایران کے اندر وسیع جدل برپا کر دیا ہے جہاں تقریبا 50 غیرملکی کمپنیاں 20 سے 25 برس کے طویل عرصوں کے معاہدے طے کریں گی اور تیل نکالے جانے اور اس کے بعد بھی تیل کی پیداوار میں سے مقررہ حصہ حاصل کریں گی۔نئے نمونے کے معاہدوں جن کوآئی پی سی کا نام دیا گیا ہے، ان کے مطابق غیرملکی کمپنیاں چشموں کی کھدائی ، تیل نکالے جانے اور پیداوار مکمل ہونے کے بعد بھی تیل کی پیداوار میں شریک رہیں گی۔ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ کے نزدیک یہ امر ایران کی تیل کی پالیسی کو مغرب کے زیرانتظام بنا دے گا جو کہ تیل کے قومیائے جانے سے قبل کے مرحلے کی جانب واپسی کے مترادف ہے۔ادھر حسن روحانی کی حکومت کا کہنا تھا کہ تیل کی منڈیوں کی موجودہ صورت حال اور قیمتوں میں مندی کے بیچ تیل کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کو لانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ۔ایران اپنی تیل کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ جنوری میں مغربی پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بعد عالمی منڈی میں اپنا حصہ واپس لینے کی ایک کوشش ہے۔ ایران اپنی پیداوار کو پابندیوں سے پہلے کی سطح تک لے جانا چاہتا ہے جو یومیہ 38 لاکھ سے 40 لاکھ بیرل تک پہنچ گئی تھی۔