تیل درآمد کرنے والوں کی اکثریت پیٹرولیم مصنوعات کے حصول کےلیے خام تیل کو صاف کرنے کےلیے ریفائنریوں کو دیتے ہیں اور پاور پلانٹس کو براہ راست فرنس آئل فروخت کرتے ہیں۔بعض کمپنیاں ڈیزل براہ راست درآمد کرتی ہیں، فرنس آئل اور ڈیزل درآمد کرنے والی اکثر کمپنیوں کا خیال ہے کہ ملک میں ان دونوں فیول کی قلت ہے اور صنعتی و بجلی کے شعبے کی طلب بمشکل ہی پوری ہو پاتی ہے، ان کمپنیوں کے سینئر حکام کہتے ہیں اس صورتحال میں ایل این جی کی درآمد روکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ان دونوں فیول کی اہمیت برقرار رہے گی اور بھاری مقدار میں ان کی ضرورت رہے گی، ان کی آج بھی ضرورت ہے قطع نظر اس سے کہ کتنی ایل این جی درآمد ہوتی ہے۔ شعبہ توانائی کے ماہرین کاکہنا ہےکہ یہ آئل مافیااپنے چند ارب روپے کے انفرادی منافع کو یقینی بنانےکےلیے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچائیگا۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق بجلی سازی کے شعبے میں ایل این جی کے کامیابی سے استعمال سے حکومت کو دسمبر2015ء کے بعد سالانہ 250ارب روپے سے زائد کی بچت ہوگی۔ جب اس نمائندے نے وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی سے پوچھاکہ وزارت پانی و بجلی کے سرکاری مراسلات کے مطابق ایل این جی کے ذریعے پیدا کی جانےوالی بجلی فرنس آئل کے ذریعے بنائی جانےوالی بجلی سے بھی مہنگی پڑے گی تو ان کا کہنا تھاکہ آر ایل این جی کے ذریعے پیدا کی جانےوالی بجلی فرنس آئل کے ذریعے پیدا کی جانےوالی بجلی سے قدرے سستی ہوگی ، اور میں اس ضمن میں عوامی مباحثے کیلئے تیار ہوں، انہوں نےکہاکہ میں یہ ثابت کردوں گاکہ آر ایل این جی ایندھن کی تمام دیگر اقسام سے سستی پڑےگی۔ انہوں نے دعویٰ کیاکہ تیل درآمد کرنے والی لابی کی ایماء پر کچھ لوگوںکی جانب سے غلط معلومات کا پروپیگنڈا کیے جانے کا انہیں علم ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بات بالکل غلط ہےکہ آر ایل این جی بجلی پیدا کرنے کے شعبے میں فرنس آئل کا متبادل نہیں ہوگی، بلکہ آر ایل این جی سے فرنس آئل کی درآمد بڑی حد تک کم ہوجائےگی، انہوں نے کہاکہ بہت سے ممالک بجلی سازی کے پلانٹس کو آر ایل این جی پر منتقل کررہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے یہ فیصلہ بہت دُرست وقت پر لیا گیا ہے، آر ایل این جی کے ذریعے پیدا کی جانےوالی بجلی نہ صرف فرنس آئل اور ڈیزل سے سستی ہوگی بلکہ یہ پیداواری عمل تسلسل کا حامل ہوگا۔ ایسے ایندھن کے لیے طویل المدتی معاہدہ کرنا ہمیشہ ہی ایک تھکا دینے والا عمل ہوتا ہے کیونکہ اس میں درجنوں ضابطے پر عمل کرنا اور مسائل حل کرنے پڑتےہیں لیکن ہم تقریباً ہر معاملہ مکمل کرچکے اور پاکستان میں درآمد کی جانےوالی ایل این جی خطے میں سب سے سستی ہوگی۔