کراچی(نیوزڈیسک) ایران سے پھلوں، ناقص ایل پی جی اور پٹرول، سینٹری ٹائلز کے بعد اب بڑے پیمانے پر اسمگل شدہ ایرانی سیمنٹ کی پاکستانی مارکیٹ میں ڈمپنگ مقامی صنعت کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایرانی سیمنٹ کی یلغار روکنے کے لیے ایرانی سیمنٹ کو منفی فہرست میں شامل کیا جائے یا پھر ایرانی سیمنٹ پر اینٹی ڈپمنگ ڈیوٹی عائد کی جائے۔ ال پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق بڑے پیمانے پر ایرانی سیمنٹ بلوچستان میں فروخت کی جارہی ہے۔ صرف مارچ سے اپریل کے دوران ایک مہینے کی مدت میں یومیہ بنیادوں پر 500سے 600ٹن ایرانی سیمنٹ بلوچستان کی مارکیٹ میں فروخت کی گئی جس سے نہ صرف مقامی سیمنٹ انڈسٹری کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا بلکہ سیمنٹ سے حاصل ہونے والے محصولات کی مد میں قومی خزانے کو بھی خسارے کا سامنا ہے۔ انڈسٹری کے ترجمان کے مطابق ایرانی سیمنٹ میں اسمگلنگ کے ساتھ بڑے پیمانے پر مس ڈکلریشین کے ذریعے بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔16اپریل کو تفتان بارڈر سے دو بڑے ٹرالرز TLZ-797اور TKV-793 کے ذریعے بالترتیب 105اور 52ٹن سیمنٹ پاکستان لائی گئی تاہم کسٹم حکام، ٹرانسپورٹرز کی ملی بھگت سے ان ٹرالرز پر بالترتیب 90اور 45ٹن سیمنٹ ظاہر کی گئی۔ اس طرح کم مقدار ظاہر کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایک جانب ایرانی سیمنٹ کی شکل میں ٹیکس چوری اور معیشت کو نقصان کا راستہ دیا گیا ہے، دوسری جانب مقامی صنعت تھرڈ شیڈول میں شامل کرکے سخت ٹیکس قوانین لاگو کیے گئے ہیں۔ مقامی انڈسٹری روزگار کے ہزاروں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ حکومت کو رائلٹی اور ٹیکسوں کی مد میں بھاری رقوم ادا کررہی ہے۔مقامی صنعت صرف ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی مد میں سیمنٹ پر فی ٹن 2ہزار روپے کے محصولات ادا کررہی ہے۔ ایرانی سیمنٹ کی وجہ سے پاکستانی صنعت کو لاحق خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ایک جانب سیمنٹ کی غیرملکی امپورٹ کی طلب بڑھ رہی ہے، دوسری جانب مختلف مارکیٹوں میں ٹیکس چوری اور مس ڈکلریشن کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ایرانی سیمنٹ کی اسمگلنگ اور مس ڈکلریشن روکے جانے سے بلوچستان میں مقامی سیمنٹ کی کھپت میں اضافہ ہوگا جس سے انڈسٹری کو اپنی پیدواری استعداد بروئے کار لانے میں مدد ملے گی۔ ساتھ ہی حکومت کو بھی مقامی سیمنٹ کی فروخت پر محصولات کی مد میں امدن ہوگی۔