اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ایف بی آر حکام نے ملکی سطح پر ٹیکس سروے شروع کرنے اور ٹیکس دہندگان و نادہندگان کے اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو کے اختیارات حاصل کرنے کے لئے حکومت کو سفارشات بھجوانے کا فیصلہ کر لیا ہے ،بیرون ممالک رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے اور پاکستان سے منی لانڈرنگ کے زریعے پیسے باہر بھجوا کر بنکوں کے زریعے واپس منگوانے کی تحقیقات بھی شروع کر دی ہیں،بنکوں کی جانب سے کروڑوں اور اربوں روپے کے کھاتے داروں کے کوائف ایف بی آر کو فراہم نہ کرنے کی وجہ سے بھی محصولات میں اضافہ مشکل ہو رہا ہے ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق ملک میں ٹیکس نیٹ میں اضافے اور مارکیٹوں کا سروے2001کے بعد سے نہیں کیا گیا ہے کیونکہ اس سلسلے میں کسی بھی حکومت نے ایف بی آر کو ٹیکس سروے کی اجازت نہیں دی تھی موجودہ حکومت بھی تاجروں کے دباﺅ کی وجہ سے ایف بی آر کو ٹیکس سروے کی اجازت دینے سے کترا رہی ہے جس کی وجہ سے ایف بی آر اپنے محاصل کا ہدف پورا کرنے سے قاصر ہے ذرائع کے مطابق اس وقت ملک کی مجموعی آبادی جو 19کروڑ سے زائد ہوچکی ہے میں انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والوں کی تعداد8 لاکھ جبکہ سیلز ٹیکس جمع کرانے والوں کی تعداد 1لاکھ سے زائد ہے جو مجموعی آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے جس کی وجوہات میں ایف بی آر کی فیلڈ فارمیشنز کی جانب سے موثر دباﺅ کا نہ ہونا ایس آر اوز کے زریعے سہولیات فراہم کرنا مستند ڈیٹا کا نہ ہونا اور عوام میں ٹیکس ادائیگی سے متعلق شعور کا اجاگر نہ ہونا بتایا جاتا ہے اس سلسلے میں ایف بی آر حکام نے ٹیکس اصلاحات کا عمل بھی شروع کیا ہے جبکہ ٹیکس سروے کو دوبارہ بحال کرنے ٹیکس دہندگان اور نادہندگان کے اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو معلوم کرنے کے لئے کمیشن قائم کرنے کا اختیار حاصل کرنے کے لئے بھی دوبارہ حکومت کو سفارشات بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے ذرائع کے مطابق ایف بی آر حکام بیرون ممالک خصوصاً دبئی میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں کے کوائف جمع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس وقت تک ایف بی آر کو دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان سے 600سے زائد پاکستانی سرمایہ داروں نے خلیج کے مختلف ریاستوں میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے لئے ہنڈی اور دیگر ذرائع استعمال کرکے پاکستان سے سرمایہ منتقل کیا ہے ان تمام سرمایہ داروں کے کوائف مختلف ایجنسیوں کے زریعے اکھٹی کی گئی ہیں اور ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور بیرون ممالک سرمایہ منتقل کرنے کے حوالے سے نوٹسز بھجوائے جا ئیں گے ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق ملک میں کالا دھن رکھنے والے اوراپنے سرمائے کو ٹیکس سے بچانے کےلئے بعض ادارے اور ارب پتی افراد اپنی رقم غیر قانونی طریقے سے بیرون ممالک بجھوا کر دوبارہ بنکوں کے زریعے واپس ملک میں منگواتے ہیں اور اس طریقے سے وہ ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں ذرائع کے مطابق ایف بی آر کی انٹیلی جنس یونٹ نے کئی ایسے اداروں کی نشاندھی بھی کی ہے جو نہ تو ایکسپورٹ کا کاروبارکرتے ہیں مگر ان کے اکاﺅنٹس میں ہر ماہ کروڑوں روپے باہر سے بھجوائے جارہے ہیں ذرائع کے مطابق ایف بی آر حکام کو مختلف بنکوں کی جانب سے اپنے کروڑوں اور اربوں روپے رکھنے والے کھاتے داروں کے بنک اکاﺅنٹس تک بھی رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے اس مقصد کےلئے ایف بی آر کے قوانین میں بھی ترامیم کی گئیں ہیں مگر اس کے باوجود بنکس ایف بی آر کے ساتھ تعاﺅن کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے محصولات میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا ہے ذرائع کے مطابق ایف بی آر حکام نے موجودہ صورتحال پر حکومت کو اپنی سفارشات بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان مسائل پر قابو پایا جا سکے ۔