پاکستان میں اسمگلنگ کی بھرمار کی وجہ سے ٹائر مینوفیکچرنگ انڈسٹری بحران کا شکار

20  اپریل‬‮  2015

کراچی(نیوز ڈیسک) پاکستان میں اسمگلنگ کی بھرمار کی وجہ سے ٹائر مینوفیکچرنگ انڈسٹری بحران کا شکار ہے، دوسری جانب بھارتی سرمایہ کار سازگار حکومتی پالیسیوں کی مدد سے دنیا بھر کی بڑی ٹائر مینوفیکچرنگ کمپنیاں خرید رہے ہیں۔ٹائر انڈسٹری کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کی پالیسیوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے، بھارت کی پالیسی انڈسٹری کے لیے معاون ہے جبکہ پاکستان میں اسمگلنگ کو دی جانے والی کھلی چھٹی مقامی صنعت کیلیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈسٹری کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے مقامی ٹائر صنعت کو تحفظ دینے اور اس کی منڈی کو اسمگل شدہ اشیا سے پاک رکھنے کیلیے بے پناہ قواعد متعارف کروا رکھے ہیں جبکہ درآمد پر ڈیوٹیاں عائد کرتے ہوئے مقامی پیداوار کنندگان اور مقامی پیدوارکو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس حکومت پاکستان ہر سال 50 ارب روپے کے قریب اپنا نقصان کر رہی ہے جب کہ مقامی ٹائر صنعت بھی ملک میں بڑھتی ہوئی ٹائر اسمگلنگ کی وجہ سے بھاری نقصا ن برداشت کر رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال 8 سے 10 ارب روپے مالیت کے ٹائر اسمگل کر کے پاکستان لائے جاتے ہیں۔
دونوں ممالک کا موازنہ کرتے ہوئے ذرائع نے کہا کہ ایسے امدادی ماحول سے استفادہ کرتے ہوئے ایک بڑے بھارتی ٹائر مینوفیکچرر جے کے ٹائرز نے میکسیکن ٹائر میکر(ٹارنل ایس اے) کو خریدنے کے بعد اب حتمی طور پرامریکا میں ایک بڑی سطح پر صارف برانڈ کو متعارف کروانے کیلیے اس کے آپریشن بیس کو استعمال کرنے کی تیار ی مکمل کر لی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی ٹائر مینوفیکچرر جے کے اب جے کے برانڈ کے کار اور لائٹ ٹرک ٹائرز متعارف کروانے کی تیاری کر رہا ہے جو رواں سال کے وسط تک متوقع ہے۔ قبل ازیں میکسیکو سٹی میں ٹارنل کی مینوفیکچرنگ استعداد کو 45ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل کرتے ہوئے پیداوار شروع کر دی گئی۔یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ بھارت میں اس وقت 40کے قریب لسٹڈ کمپنیاں ٹائر کی صنعت سے وابستہ ہیں جب کہ پاکستان میں ایسی صرف 6 سے 8 کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے صرف ایک کمپنی پسنجر ریڈئیل ٹائرز، دو کمپنیاں مینوفیکچر ٹریکٹر ٹائرز جب کہ باقی ماندہ موٹر سائیکل کے ٹائرز تیار کر رہی ہیں۔یہاں اس بات کا ذکر بھی اہم ہے کہ 2012 میں پاکستان میں مقامی طور پر 1.7ملین یونٹس تیار کیے جاتے تھے جو کل طلب کا 20 فیصد تھے جب کہ 48فی صد یا 4ملین ٹائرز درا?مد کیے جاتے تھے اور باقی ماندہ 32 فی صد یا 2.6 ملین ٹائر اسمگل ہو کر پاکستان ا?تے تھے۔ اس کی نسبت اسی عرصے کے دوران بھارت کی ا?ٹو ٹائر مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق بھارت کی ٹائر صنعت کی کل تعداد 225.4 ملین یونٹس تک جا پہنچی تھی۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…