ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پاکستان میں اسمگلنگ کی بھرمار کی وجہ سے ٹائر مینوفیکچرنگ انڈسٹری بحران کا شکار

datetime 20  اپریل‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(نیوز ڈیسک) پاکستان میں اسمگلنگ کی بھرمار کی وجہ سے ٹائر مینوفیکچرنگ انڈسٹری بحران کا شکار ہے، دوسری جانب بھارتی سرمایہ کار سازگار حکومتی پالیسیوں کی مدد سے دنیا بھر کی بڑی ٹائر مینوفیکچرنگ کمپنیاں خرید رہے ہیں۔ٹائر انڈسٹری کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کی پالیسیوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے، بھارت کی پالیسی انڈسٹری کے لیے معاون ہے جبکہ پاکستان میں اسمگلنگ کو دی جانے والی کھلی چھٹی مقامی صنعت کیلیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈسٹری کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے مقامی ٹائر صنعت کو تحفظ دینے اور اس کی منڈی کو اسمگل شدہ اشیا سے پاک رکھنے کیلیے بے پناہ قواعد متعارف کروا رکھے ہیں جبکہ درآمد پر ڈیوٹیاں عائد کرتے ہوئے مقامی پیداوار کنندگان اور مقامی پیدوارکو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس حکومت پاکستان ہر سال 50 ارب روپے کے قریب اپنا نقصان کر رہی ہے جب کہ مقامی ٹائر صنعت بھی ملک میں بڑھتی ہوئی ٹائر اسمگلنگ کی وجہ سے بھاری نقصا ن برداشت کر رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال 8 سے 10 ارب روپے مالیت کے ٹائر اسمگل کر کے پاکستان لائے جاتے ہیں۔
دونوں ممالک کا موازنہ کرتے ہوئے ذرائع نے کہا کہ ایسے امدادی ماحول سے استفادہ کرتے ہوئے ایک بڑے بھارتی ٹائر مینوفیکچرر جے کے ٹائرز نے میکسیکن ٹائر میکر(ٹارنل ایس اے) کو خریدنے کے بعد اب حتمی طور پرامریکا میں ایک بڑی سطح پر صارف برانڈ کو متعارف کروانے کیلیے اس کے آپریشن بیس کو استعمال کرنے کی تیار ی مکمل کر لی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی ٹائر مینوفیکچرر جے کے اب جے کے برانڈ کے کار اور لائٹ ٹرک ٹائرز متعارف کروانے کی تیاری کر رہا ہے جو رواں سال کے وسط تک متوقع ہے۔ قبل ازیں میکسیکو سٹی میں ٹارنل کی مینوفیکچرنگ استعداد کو 45ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل کرتے ہوئے پیداوار شروع کر دی گئی۔یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ بھارت میں اس وقت 40کے قریب لسٹڈ کمپنیاں ٹائر کی صنعت سے وابستہ ہیں جب کہ پاکستان میں ایسی صرف 6 سے 8 کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے صرف ایک کمپنی پسنجر ریڈئیل ٹائرز، دو کمپنیاں مینوفیکچر ٹریکٹر ٹائرز جب کہ باقی ماندہ موٹر سائیکل کے ٹائرز تیار کر رہی ہیں۔یہاں اس بات کا ذکر بھی اہم ہے کہ 2012 میں پاکستان میں مقامی طور پر 1.7ملین یونٹس تیار کیے جاتے تھے جو کل طلب کا 20 فیصد تھے جب کہ 48فی صد یا 4ملین ٹائرز درا?مد کیے جاتے تھے اور باقی ماندہ 32 فی صد یا 2.6 ملین ٹائر اسمگل ہو کر پاکستان ا?تے تھے۔ اس کی نسبت اسی عرصے کے دوران بھارت کی ا?ٹو ٹائر مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق بھارت کی ٹائر صنعت کی کل تعداد 225.4 ملین یونٹس تک جا پہنچی تھی۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…