اسلام آباد (نیوزڈیسک) آر ایل این جی سے تیار کردہ بجلی فرنس آئل سے بھی زیادہ مہنگی پڑرہی ہے، سوئی ناردرن،سوئی سدرن گیس کمپنی اور پی ایس او کے چارجز کی زائد شرح نے قدرتی مائع گیس کے نرخ میں اضافہ کردیا ۔ آر ایل این جی (ری گیسیفائیڈ قدرتی مائع گیس) سے چلنے والے پاور پلانٹس پر فی ایم ایم بی ٹی یو لاگت 12.80ڈالرہے جوکہ فرنس آئل پر چلنے والے پاور پلانٹس کے مقابلے میں مہنگی ہے۔ یہ بات ایک سرکاری مراسلےسے سامنے آئی ،روزنامہ جنگ کے صحافی خالد مصطفی کی رپورٹ کے مطابق ایل این جی کی قیمت کے حوالےسے دستاویز بھی دی نیوز کے پاس موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہےکہ اگر جہاز کا کرایہ(فریٹ چارجز)7.97ڈالر رہیں تو، پی ایس او، گیس کمپنیوں کے چارجز کی شرح،ٹرمنل چارجز اور 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس(جی ایس ٹی) کے باعث بجلی بنانے کی بابت آر ایل این جی کی قیمت میںفی ایم ایم بی ٹی ویو3.83 سے 12.80 ڈالر تک کا اضافہ ہوگا۔ نواز حکومت کی جانب سے ایل این جی درآمد کرانے کا مقصد بجلی کے نرخوں کو کم کرنا تھا، تاہم موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایل این جی کے ذریعے سستی بجلی کا حصول محض ایک سہانا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ دونوں سرکاری کمپنیوں نیشنل پاور کنٹرول سینٹر(این پی سی سی) اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی(این ٹی ڈی سی ) کے جنرل منیجر (سسٹم آپریشنز)کی جانب سے سوئی ناردرن گیس پائپ لائن سینٹرکے جنرل منیجر شہر یار قاضی کو 29جولائی 2015کو ایک خط بھیجا گیا، جس کا موضوع’پاورپلانٹ کی جانب سے آر ایل این جی کی کم کھپت تھا۔ اس میں یہ بات واضح کی گئی کہ فر نس آئل کے ذریعے بنائی جانیوالی بجلی آر ایل این جی آئل سے بنائی جانیوالی بجلی سے بہت سستی ہے ۔ خط میں بتایا گیاکہ کیپکو ،ایف کے پی سی ایل ، اورینٹ ، سیف، سفائرپاور پلانٹس کو آر ایل این جی فراہم کی جارہی ہے۔ اتھارٹی کی جانب سےتیار کردہ میرٹ آڈر کے مطابق تمام پاور پلانٹس کو چلانا این پی سی سی کی ذمہ داری ہے۔ خط کے مطابق میرٹ آڈر کے تحت آر ایل این جی پر چلنے والے پلانٹس فرنس آئل پر چلنے والے پلانٹس کے مقابلے میں قدرے مہنگی بجلی بنارہے ہیں۔ میرٹ آڈرکے تحت سسٹم کو چلانے اور سستی بجلی کی تیاری کی ذمہ داری این پی سی سی پر عائد ہے ، اور اس کے نتیجے میں ان پاور پلانٹس کو فراہم کی جانیوالی آر ایل این جی کو مکمل طور پر استعمال نہیں کیا جارہاہے۔ وزارت پانی و بجلی کے سیکریٹری یونس ڈھاگاکو جب اس تشویشناک صورتحال سے آگاہ کیا گیا تو ان کاکہنا تھاکہ میں نے ایساکوئی سرکاری خط نہیں دیکھا،تاہم انہوں نے بتایاکہ پاور پلانٹس میں آر ایل این جی، فرنس آئل کے بجائے صرف ڈیزل کی جگہ استعمال کی جائیگی۔ غیر جانبدار ماہرین کے مطابق یہ خبر انتہائی حیران کن ہے اور اس کا مطلب ہےکہ آر ایل این جی کے ذریعے بنائی جانیوالی بجلی فرنس آئل کے ذریعےتیارکردہ بجلی سے مہنگی ہے۔ آر ایل این جی کے فرنس آئل سے مہنگے ہونے کی وجہ گیس کمپنیوں کی شر ح منافع میں بہت زیادہ اضافہ ہے۔ جس کے باعث صارفین کے اخراجات میں ناقابل قبول حد تک اضافہ ہوگیا۔ مقامی گیس کے آر ایل این جی سے تبادلے سے صارفین کو گیس کی فراہمی یقینی بنے گی۔ لیکن اضافی گیس ان اکاؤنٹڈ فار گیس(یو ایف جی) کے زمرے میں آئیگی ۔ ادا کر و اور ذمہ داری لو،کی شق کا مطلب ہےکہ اگر درآمد شدہ گیس مکمل طور پر استعمال کرنے میں ناکام رہی ،یا اگر ایل این جی بردار جہاز کی گیس ملک میں استعمال نہیں ہوئی ، تو ایل این جی بردار جہاز کا نقصان عوام کو برداشت کرنا ہوگا، اور اگر نجی کمپنیاں آر ایل این جی استعمال کرنے میں ناکام رہیں، یا کسی صورت میں کسی صارف کی طرف سے کسی نہ کسی طرح آر ایل این جی استعمال کی گئی ، تو اس نقصان کا ازالہ اضافی نرخوں کی صورت میں صارفین کو کرنا ہوگا۔ حکومت کی جانب سے ایل این جی کی درآمد کا مقصد سستی بجلی کی تیاری تھا ، تاہم موجودہ صورتحال میں یہ مقصد فوت ہوتا نظر آرہا ہے۔ سوئی ناردرن ، سوئی سدرن اور پی ایس او کی جانب سے ایل این جی کی درآمد پر منافع کی شرح میں اضافے سے بجلی بنانے، کھاد سازی اور سی این جی کے شعبے کیلئے یہ مہنگی ہوگئی۔ این پی سی سی اور این ٹی ڈی سی ایل کے جنرل منیجرکے خط کےمندرجات کی تصدیق کرتے ہوئے وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل نے کہاکہ منافع کی شرح میں غیر منصفانہ اضافے کے باعث حکومت کا بنیادی مقصد فوت ہوگیا۔ ایل این جی کے ایک اور لین دین کے حوالےسے دی نیوز کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق 21اپریل کو ڈی جی اوگرا کو ایک خط لکھا گیا ، جس سے انکشاف ہواکہ ایل این جی کی درآمد کی قیمت 8.52ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے ، جس میں ایل این جی ٹرمنل سروس چارجز1.46ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہیں۔ درآمد شدہ ایل این جی کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت 8.52ڈالر بہت زیادہ ہے، کیونکہ 15اپریل کو ایل این جی اوپن مارکیٹ میں 6.9ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو دستیاب تھی۔ اس لیے ڈی جی کو ارسال کردہ خط میں درآمد شدہ ایل این جی کے نرخ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔