نئی دہلی(نیوز ڈیسک)دہلی کے 18 سالہ ریتیش اگروال کو ایک رات ان کے اپارٹمنٹ سے باہر کر دیا گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا ناخوشگوار واقعہ تھا جس نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔انھیں مجبوراً ایک ہوٹل میں جانا پڑا اور انھیں ایسی صورت حال سے سابقہ پڑا جس کا وہ پہلے بھی بھارت میں دوران سفر سامنا کر چکے تھے۔انھوں نے بتایا: ’ریسپشنسٹ سو رہے تھے، کمرے میں ساکٹس کام نہیں کر رہے تھے۔ قالین پھٹے ہوئے تھے، باتھ روم ٹپک رہا تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ آپ کو کارڈ سے بل ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے تھے۔‘انھوں نے بتایا:’ میں نے غور کیا کہ اگر یہ میرے لیے مسئلہ ہے تو بہت سے مسافر اس سے دوچار ہوتے ہوں گے۔ آخر بھارت میں اچھا معیاری ہوٹل کا کمرہ مناسب قیمت پر کیوں نہیں ہو سکتا ہے؟‘چار سال بعد 21 سال کی عمر میں ریتیش اگروال اویو رومز کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ اویو رومز ایک ہزار ہوٹلوں کا ایک نیٹ ورک ہے جو ملک کے 35 شہروں میں سرگرم ہے اور اس کی ماہانہ آمدنی 35 لاکھ امریکی ڈالر ہے اور اس کے تقریبا ایک ہزار ملازمین ہیں۔یہ کمپنی بغیر برانڈ والے ہوٹلوں کے ساتھ کام کرتی ہے ان کی خدمات کو بہتر بنانے اور ان کے ملازمین کو تربیت دینے کے ساتھ انھیں اپنے نام کے ساتھ ایک برانڈ بھی دیتی ہے اور اس کے بدلے میں ہوٹل سے اس کی آمدنی کا کچھ حصہ لیتی ہے۔اور اس کے عوض اویو کے برانڈ کی وجہ سے ہوٹل کے کمرے زیادہ تر بھرے رہتے ہیں۔اپنی تجارت کے لیے انھوں نے ایک ایپ بھی تیار کی ہے جس سے ہوٹل میں آنے والے کمرہ بک کراسکیں، ہوٹل کا راستہ معلوم کر سکیں اور ہوٹل میں پہنچنے کے بعد مختلف خدمات حاصل کرنے کا طریقہ جان سکیں۔اس قدر تیزی سے ترقی کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی دور بہت مشکل تھا۔ کسی کو اس بات پر اعتبار نہیں ہوتا تھا کہ یہ مستقبل کا ٹیکنالوجی کاروبار ہے۔لیکن بعض لوگوں کو ان کی بات پر یقین آ گیا اور انھیں اویو رومز جیسے خیال پیش کرنے کے لیے ’تھیل فیلوشپ‘ دی گئی۔ یہ فیلوشپ ابتدائی دور میں فیس بک میں انویسٹ کرنے والے ’پے پال‘ کے شریک بانی کی جانب سے دی جاتی ہے۔ یہ ہر سال 20 ایسے نوجوانوں کو تعلیم چھوڑ کر کاروبار کھڑا کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔انھوں نے فیلوشپ کی جانب سے دی جانے والی رقم کو اپنے کاروبار میں لگایا اور یہ کمپنی دہلی کے پاس گڑگاؤں میں ایک ہوٹل سے سنہ 2013 کے جون مہینے میں 900 امریکی ڈالر ماہانہ کے اخراجات پر قائم ہوئی۔اگروال نے کہا: ’میں ہی اس ہوٹل کا منیجر، انجینیئر، ریسپشنسٹ ہوتا تھا اس کے ساتھ ہوٹل کے کمروں میں سامان بھی پہنچاتا تھا۔ میں رات کو اپنا ایپ بنانے کے لیے کوڈ لکھا کرتا اور اپنی ویب سائٹ میں بہتری لانے کی کوشش کرتا۔ لیکن اس کے ساتھ میں ایک مضبوط ٹیم بنا رہا تھا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ ہمیں اسے آگے لے جانا ہے۔‘لیکن وہ اپنے کاروبار میں سرمایہ لگانے والوں کو سستے ہوٹلوں کی خستہ حالت دکھا کر ہی راضی کر سکتے تھے۔اگروال بتاتے ہیں کس طرح وہ اپنے پہلے سرمایہ کار کو ہوٹل لے گئے اور پھر انھیں دوسرے ہوٹلوں کے مسائل دکھائے اور انھیں ان پر اعتماد ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ اب کاروبار بڑا ہو چکا ہے اور سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے میں زیادہ آسانی ہے۔ حال ہی میں ان کی کمپنی نے جاپان کے سافٹ بینک سے 10 کروڑ دالر حاصل کیا ہے۔بہر حال انھیں کم عمری میں کاروبار کھڑا کرنے میں بہت سی دقتوں کا سامنا رہا۔ بہت سے لوگوں نے ان کی کم عمری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر کچھ کرنا ہے تو ’واقعتا جلدی کریں کیونکہ اگر آپ ناکام ہوجاتے ہیں تو آپ کو سیکھنے کا موقع ہوگا اور آپ کو اپنے دوسرے کاروبار میں کامیابی کا زیادہ امکان رہے گا۔