منگل‬‮ ، 04 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

امریکی طالبہ کی ڈگری برائے فروخت

datetime 5  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ایک امریکی خاتون اشیاء کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ ‘ای بے’ پر اپنی گریجویشن کی ‘ڈگری’ اور چار سالہ ‘تجربہ’ فروخت کر رہی ہے۔فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کی طالبہ اسٹیفنی ریٹر نے گریجویش کے بعد ملنے والی ملازمت سے غیر مطمئین ہو کر اپنا چار سالہ تھیٹر کا ڈپلومہ فروخت کرنے کے لیے ’ای بے‘ پر اشتہار دیا ہے۔ ویب سائٹ نیوز فیڈ کے مطابق، اسٹیفنی نے 2011 میں تھیٹر میں ڈپلومہ کیا تھا ، اور وہ اب تک بطور ایک اسسٹننٹ کے ملازمت کر رہی ہے، جب کہ اس کا تعلیمی قرضہ 40 ہزار ڈالر ہے۔اسٹیفنی نے ذرائع کو بتایا کہ ایک دن جب میں اپنے کمرے کی صفائی کر رہی تھی، تو مجھے اپنا ہائی اسکول،کالج کی سند اور یونیورسٹی کا ڈپلومہ ملا، میں نے سوچا کہ کاغذ کا یہ ٹکڑا بہت سے لوگوں کے لیے قیمتی ہو گا لیکن میرے لیے تھیٹر کی ڈگری کے ساتھ اس شہر میں ملازمت کے مواقع ملنے کے امکانات کم ہیں لہذا ، میں نے اپنی ڈگری کو بیچنے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ تھیٹر کیا ڈپلومہ کی اہمیت کم نہیں ہے۔فیڈرل ریزرو بنک آف نیویارک کی ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ صرف 27 فیصد گریجویٹ طلبہ اپنی ڈگری سے متعلق ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اس طرح کی صورت حال میں بہت سے گریجویٹ حد درجہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب وہ دیکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ڈگری پر کتنا خرچ کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ ہزاروں ڈالر کے قرضوں میں ڈوب گئے ہیں۔ ای کامرس کی ویب سائٹ ’ای بے‘ پر اپنے اشتہار میں اسٹیفنی نے لکھا ہے کہ وہ اپنا فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کی ڈگری 50 ہزار ڈالر میں فروخت کر رہی ہے اور 10 ہزار ڈالر اس میں قرضے کے علاوہ ہیں، جو وہ اپنے چار سالہ تجربے کے بدلے میں وصول کرنا چاہتی ہے۔ اسٹیفنی نے اشتہار میں اپنے تجربے کے حوالے سے تفصیل بیان کی ہے، جس میں یونیورسٹی کا دورہ شامل ہے، اس کے علاوہ یونیورسٹی کے فیس بک اور یونیورسٹی کی تمام یادوں کے ریکارڈ تک رسائی شامل ہے۔علاوہ ازیں اسٹیفنی اتوار سے جمعرات تک صبح سات بجے سے رات دس بجے تک ڈگری کے خریدار کے ساتھ براہ راست اپنی یادیں اور تجربہ شیئر کرنے کے لیے بھی تیار ہے اور ساتھ ہی وہ کرائے کی کار میں ڈگری خریدنے والے طالب علم کو شہر گھومانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔اسٹیفنی نے کہا کہ کالج کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلبہ کو قرضے کے حوالے سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیئے۔ اپنی موجودہ صورت حال سے پریشان ہونے کے باوجود، وہ دوبارہ سے یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی ہے، لیکن اس بار وہ ایک ایسے شہر کی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتی ہے، جہاں ملازمت کے مواقع زیادہ ہیں، تاکہ وہ اپنے اخراجات کو باآسانی برداشت کر سکے۔اسکالر شپ کے بارے میں اسٹیفنی نے کہا کہ طلبہ کو یونیورسٹی سے قرضہ لینے سے پہلے علاقے کے مخیر افراد سے اسپانسر شپ کے لیے خط وکتابت کرنی چاہیئے، اگرچہ سننے میں یہ بات مضحکہ خیز لگتی ہے لیکن میرے کچھ دوستوں نے ایسا کیا تھا اور وہ کامیاب بھی ہوگئے۔اسٹیفنی نے کہا کہ اگر وہ اپنی ڈگری بیچنے میں ناکام ہو گئیں تو، چاہیں گی کہ کوئی مخیر آدمی انھیں اسپانسر کر دے، اور اگر یہ نہیں ہو سکا تو وہ پچیس سال تک قرضے کی کم از کم اقساط جمع کرائی گی اور امید کرتی ہے کہ ایک دن حکومت اس پر ترس کھا کر خود ہی اس کا قرض معاف کر دے گی۔



کالم



دنیا کا انوکھا علاج


نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…