لاہور(این این آئی)امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ٹرانس جینڈر قانون کو ختم نہ کیا گیا تو اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔ اگر لوگ کرسی کی خاطر وفاقی دارالحکومت کا گھیراؤ کر سکتے ہیں تو ملک کی معاشرتی اساس کو بچانے اور نظریہ کے دفاع کے لیے وہاں کیوں نہیں جایا جا سکتا۔ دینی جماعتوں اور ملک کے
سنجیدہ سیاست دانوں نے فحاشی و عریانی اور ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کے لیے پاس کیے گئے ٹرانس جینڈر قانون کو مسترد کر دیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے قانون کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ 227کے مطابق ملک میں قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکتی، حکمران بتائیں کس کے ایجنڈے پر کاربند ہیں۔ ن لیگ، پی ٹی آئی، پی پی پی اور ایم کیو ایم بظاہر آپس میں دست و گریبان مگر مغربی ایجنڈے کے نفاذ کی بات آتی ہے تو چاروں شیروشکر ہو جاتے ہیں۔ واضح کر دوں خواجہ سراؤں کے حقوق کے مخالف نہیں، ملک میں کل ساڑھے تین ہزار خواجہ سرا ہیں، حکومت ان کی ہمدرد ہے تو انھیں ملازمتیں دے، رہائش اور خوراک کا بندوبست کرے۔ قانون کا مقصد محض ہم جنس پرستی کا فروغ ہے، مغربی این جی اوز نے اس کے لیے فنڈز دیے۔ وہ وقت گزر گیا جب بند کمروں میں فیصلے ہوتے تھے، اب قوم جاگ گئی ہے۔ کروڑوں مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی رہنمائی میں اسلامی پاکستان کے لیے قربانیاں دیں، ملک کے نظریاتی تشخص کے دفاع کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ وہ مال روڈ پر ٹرانس جینڈر قانون کے خلاف مظاہرہ سے خطاب کر رہے تھے۔مقررین اور سٹیج پر موجود شرکا میں سیکرٹری جنرل امیر العظیم، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، جواد نقوی،اسد اللہ نقیبی، امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی جاوید قصوری، شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف،
امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اللہ مجاہد، امیر جماعت اسلامی گوجرانوالہ مظہر رندھاوا، امیر جماعت اسلامی شیخوپورہ رانا تحفہ دستگیر، امیر ضلع ننکانہ حافظ حبیب ضیا و دیگر شامل تھے۔ سراج الحق نے حکمرانوں کو خبردار کیا کہ 62ون ایف کو نہ چھیڑیں، ورنہ قوم کے ہاتھ ان کے گریبانوں میں ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس ایکٹ میں حال ہی میں دو ممبران نے ترامیم کا بل پیش کیا ہے۔
62ون ایف قانون کا مقصد یہ ہے کہ اسمبلیوں میں صادق اور امین لوگ جائیں، مگر شاید کچھ لوگوں چاہتے ہیں کہ وہاں چور اور لفنگے پہنچ جائیں۔ پوری دنیا میں ممبران پارلیمنٹ کے لیے ایمان دار اور سچا ہونے کی شرط ہے، ہمارے ہاں الٹی ڈگر چل پڑی ہے۔ حیران ہوں کہ ممبران کی اخلاقی اقدار بلند کرنے کی بجائے معیارات کا پیمانہ ہی کم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ امیر جماعت نے کہا کہ ربیع الاوّل کے بابرکت مہینہ میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم حضورؐ کی سیرت و کردار پر گفتگو کے لیے مجالس کا اہتمام کرتے، مگر مغرب زدہ حکمرانوں نے ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم ٹرانس جینڈر قانون کے خلاف مظاہرہ کریں۔ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔
قانون ایک سازش کے تحت پاس کروایا گیا جس کا مقصد ملک کے اسلامی تشخص پر حملہ ہے۔ انھوں نے کہا ہم دلیل سے بات کرتے ہیں اور ہمارا موقف ہے کہ اگر کوئی شخص نادرا سے اپنی جنس تبدیل کروانا چاہے تو میڈیکل بورڈ اس کا سرٹیفکیٹ دے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خود ہی فیصلہ کرے کہ وہ مرد نہیں عورت یا عورت نہیں مرد ہے اور اسے اس کے مطابق شناختی کارڈ مل جائے۔ برطانیہ میں بھی ایسی اجازت نہیں ہے، امریکا میں اس طرح کا قانون ہے، مگر وہاں 32ریاستیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں، یہ قانون سراسر فتنہ ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت جس میں مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں سے کہتا ہوں کہ اس قانون کو فوری واپس لے اور جماعت اسلامی کی جانب سے سینیٹ میں پیش کیے گئے ترمیمی بل کو منظور کرے۔