منگل‬‮ ، 04 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

برٹش لائبریری کا افغان طالبان سے متعلق دستاویزات محفوظ کرنے سے انکار

datetime 29  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن(نیوز ڈیسک)برطانیہ میں برٹش لائبریری نے دہشت گردی سے متعلق قوانین کے بارے میں تشویش کی وجہ سے طالبان سے تعلق رکھنے والی بہت سی دستاویزات کو محفوظ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔افغان طالبان سے متعلق دستاویزات میں سرکاری اخبار، نقشے اور ریڈیو نشریات شامل ہیں۔تاہم دانشوروں نے برٹش لائبریری کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے یہ دستاویزات افغانستان میں جاری بغاوت کو سمجھنے کا قابلِ قدر ذریعہ ہیں۔لائبریری کا کہنا ہے کہ اسے خوف ہیکہ اگر وہ ان دستاویزات کو محفوظ کرتی ہے تو وہ کہیں دہشت گردی سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب نہ ہو جائے۔ لائبریری کے مطابق اسے قانونی طور پر صلاح دی گئی ہے کہ وہ طالبان سے متعلق مواد کو قابلِ رسائی نہ بنائے۔ایلیکس سِٹرک وین لِنشوٹن جو مصنف اور محقق ہیں اور جنھوں نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں مدد کی تھی، کہتے ہیں کہ لائبریری کا فیصلہ ’حیران کن اور مایوس کن ہے۔‘’ان دستاویزات میں بم بنانے کی یا اس قسم کی کوئی ترکیب درج نہیں۔ یہ دستاویزات ہیں جو تاریخ کو سمجھنے میں لوگوں کی مدد کریں گی، خواہ افغان اپنے قریب کے ماضی کو جاننے کی کوشش کر رہے ہوں یا باہر کے لوگ اس تحریک کو سمجھنا چاہتے ہوں۔‘انھوں نے کہا ’کوئی بھی عالم یہ محسوس کرے گا کہ موضوع سے متعلق ابتدائی دستاویزات کو پڑھنا بہت ضروری ہوتا ہے اگر آپ شدت پسند گروہوں کو سمجھنا چاہتے ہوں۔ لیکن برطانوی قانون کے واضح نہ ہونے کے باعث دانشوروں میں اس قسم کے مواد کے بارے میں خوف کی فضا پائی جاتی ہے۔‘ڈبلن سٹی یونیورسٹی میں پرفیسر جیمز فٹز جیرلاڈ کہتے ہیں کہ لائبریری کا فیصلہ ’قطعی طور پر بیوقوفی پر مبنی ہے۔‘ انھوں نے حکومت کو یہ کہتے ہوئے موردِ الزام ٹھہرایا کہ دہشت گردی سے متعلق قوانین دانشوروں کو انتہا پسند گروہوں کے بارے میں مطالعہ کرنے میں نروس کر رہے ہیں۔’ہم پہلے ہی اثرات دیکھ رہے ہیں۔ کچھ لیکچرار دہشت گردی کے بارے میں مضامین پڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ وہ شک کی زد میں نہیں آنا چاہتے۔‘طالبان سے متعلق دستاویزات کو محفوظ کرنے کا منصوبہ سنہ 2012 میں شروع کیا گیا تھا اور اس میں برٹش لائبریری کے مشاورتی بورڈ کے ارکان شامل تھے۔ دستاویزات کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے اور ان کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔لائبریری کے ایک ترجمان نے بتایا’ اگرچہ ان دستاویزات کی تحقیقی قدر تسلیم کی گئی ہے لیکن فیصلہ کیا گیا کہ اس میں کچھ ایسا مواد ہے جو دہشت گردی کے قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے جو لائبریری کی تحقیق کاروں کواس مواد تک رسائی پہنچانے کی صلاحیت کو محدود کر دے گا۔‘جب برطانیہ میں ہوم ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا گیا تو کہا گیا کہ یہ لائبریری کا اپنا مسئلہ ہے۔



کالم



دنیا کا انوکھا علاج


نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…

یونیورسٹی آف نبراسکا

افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں…

افغانستان

لاہور میں میرے ایک دوست تھے‘ وہ افغانستان سے…

یہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ

لیڈی اینا بل ہل کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے…

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…