لاہور (این این آئی)لاہور پولیس نے پارٹی چیئرمین عمران خان کی جانب سے اسلام آباد پر ایک اور لانگ مارچ کی کال کے پیش نظر پاکستان تحریک انصاف کے ایک ہزار سے زائد رہنماؤں، کارکنوں اور فنانسرز کو ان کی احتیاطی گرفتاری (جرم سرزد ہونے سے قبل کی
جانے والی گرفتاری) کی فہرستیں تیار کرلیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق عمران خان کی جانب سے حکومت کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے 6 روز کی مہلت دی گئی تھی جو گزشتہ روز اختتام پزیر ہوچکی ہے۔لاہور پولیس کی جانب سے نشان زد کیے گئے 329 افراد میں مبینہ بڑے مالی معاون شامل ہیں اور مہم کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے لیے ٹرانسپورٹ، کھانے، ساؤنڈ سسٹم دیگر لاجسٹک سپورٹ کا انتظام کرتے ہیں۔اسی طرح دوسری فہرست صوبائی و قومی اسمبلی کے 743 افراد پر مشتمل ہے جن میں قومی و صوبائی اسمبلی کے 743 اراکین، پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز، لیڈر ایکٹیوسٹ اور کارکنان شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کو اپنے کارکنان کو آئندہ لانگ مارچ کی تیاری کے لیے وفاقی دارالحکومت پہنچنے کیلئے کہا تھا جس کے بعد پولیس نے مشقیں شروع کردی ہیں۔خیال رہے قبل ازیں عمران خان نے حکومت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے لیے 6 روز کی ’مہلت‘ دی تھی۔سینئر پولیس افسر کے مطابق رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین نے پارٹی کی قیادت کو کہا ہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہور پارٹی کی وسیع تر حمایت کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے،پی ٹی آئی کی اسلام آباد مارچ کے لیے انہیں تیار کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ دوسرے مارچ کی کال کے پولیس کے اعلیٰ حکام نے ڈویڑنل سپرینٹڈینٹس (ڈی ایس پیز)
اور اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ اوز) سے ملاقاتیں کی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ملاقاتوں میں ان افسران کو مختلف ٹاسک سونپے گئے ہیں، پی ٹی آئی کے ایک ہزار رہنماؤں اور کارکنان کی فہرست کے ساتھ شیئر کی گئی ہے۔پولیس افسر کے مطابق یہ فہرست ایس ایچ او، اسپیشل برانچ اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے دیگر متعلقہ ونگز کی فراہم کردہ معلومات کے ذریعے تیار کی گئی۔انہوں نے کہاکہ ہم نے 2 فہرستوں کو اے، بی اور سی کیٹیگریز میں تقسیم کیا
ہے، پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو جو اے کیٹیگری میں آتے ہیں انہیں ٹربل میکر اور تشدد کرنے والوں کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے،ان کی گرفتاری کے لیے محکمہ پولیس نے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی ہیں جن کی گرفتاری اور نقل و حرکت کے حوالے سے ڈی بریفنگ سیشن میں ہدایات دی گئی ہیں۔انہوں نے کہاکہ پولیس کے پاس پارٹی کی طرف سے کیے گئے ماضی کے احتجاج کے دوران ریلیاں نکالنے اور دیگر سرگرمیوں کے حوالے
سے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی کیٹیگری ’اے‘ میں پرتشدد سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلی تشخیصی رپورٹس موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان میں سے بہت سے شہر کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہیں، جن میں تاجر، صنعت کار، ٹرانسپورٹرز اور تاجر کے نام موجود ہیں۔مذکورہ افراد اسٹریٹ پاور دکھانے کے لیے پی ٹی آئی کے جلسوں اور عوامی اجتماعات کی مالی اعانت کرتے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ لاہور پولیس نے تمام 6 ڈویژنل
ایس پیز اور شہر میں تعینات 85 ایس ایچ اوز کی مختلف اجلاسوں میں فہرستوں میں مذکور افراد کی ’احتیاطی گرفتاریاں‘ کرنے کے انتظامات کو حتمی شکل دے دی ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران بڑی حد تک اسی حکمت عملی پر عمل کریں گے جو لاہور میں پی ٹی آئی کے پچھلے لانگ مارچ کو بے اثر کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔نجی ٹی وی کے مطابق انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت صوبائی دارالحکومت میں دفعہ 144 کے نفاذ اور ایم پی او کے تحت گرفتاریوں کے آپشن پر بھی غور کر رہی ہے۔
پولیس افسر کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے احکامات ملنے کے بعد پولیس ان افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرے گی۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور پولیس حکام نے سٹی ایس ایچ اوز کو ہدایت کی ہے کہ وہ لاہور میں ’مارچ کرنے والوں‘ کو روکنے کے لیے شہر کی بڑی سڑکوں کو بند کرنے کے لیے کنٹینرز کی فراہمی کے انتظامات کریں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر کے خارجی اور داخلی راستوں پر بھی سیکیورٹی کو بڑھا دیا گیا ہے، خاص طور پر شاہدرہ کے بتی چوک پر، جہاں پارٹی کے پچھلے لانگ مارچ کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔