کراچی(این این آئی)سابق وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے کہا ہے کہ عمران خان قوتوں کے لئے قابل قبول نہیں رہے، عمران خان کو کرپشن کے کسی الزام میں نہیں نکالا گیا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیراعظم نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کیا تھا، یہ ان کے گلے میں پڑ گیا،
جمہوریت ایک تسلسل کا نام ہے، یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ ہر 2 سال بعد حکومت کو چلتا کردیا جائے، 5 سال مکمل ملنے چاہیے، اگر اس کو درمیان میں چھیڑا جائے گا تو ردعمل ضرور آئے گا، عمران خان کو زبردستی ہٹایا گیا، مجھے موجودہ حکومت کی مدد کے لیے کہا گیا،میں کیوں ان کی مدد کروں جنہوں نے ہمیں باہر نکالا؟، ہماری کارکردگی موجودہ حکومت سے بہتر تھی، ہمارے دور میں ٹیکس وصولی ریکارڈ سطح پرکی گئی، ہم نے 55 لاکھ نئی نوکریاں دی ہیں،فون کال کا انتظار کرنے والے کہاں کے سیاستدان بن گئے، موجودہ تمام صورتحال کا ایک ہی حل ہے کہ مضبوط نگران حکومت لائی جائے، ہم بھی نگران حکومت کی مدد کریں گے اور راستہ دکھائیں گے۔اتوارکو اپنی رہائش گاہ پر مزمل اسلم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر شوکت ترین نے کہا کہ ہماری کارکردگی موجودہ حکومت سے بہتر تھی، ہم روپے اور ڈالر کے معاملے میں ان سے بہتر رہے۔انہوں نے کہا کہ اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)کے دونوں ادوار کے ایکسچینج ریٹ کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے 1988 سے 1999 تک 200 فیصد تک اس میں تنزلی کی، 2008 سے 2018 تک انہوں نے اس میں 100 فیصد تک کمی کی، ہمارے دور میں ایکسچینج ریٹ 123 سے 178 پر گیا، یہ 50 فیصد بھی نہیں ہے لیکن یہ لوگ اس پر بھی شور مچاتے ہیں۔شوکت ترین نے کہا کہ ہم پچھلی حکومت کے ہی پراجیکٹس کو پورا کرتے رہے ہیں،
ہم نے ڈیمز پر بہت زور دیا ہے، ڈیمز کا فائدہ ہمیں نہیں ہوگا مگر یہ خان صاحب کا بہتر اقدام تھا۔انہوں نے کہا کہ 3 سال میں ساڑھے 5 کروڑ نوکریاں پیدا ہوئیں، عام لوگوں کے لیے ہم صحت کارڈ، کامیاب پاکستان، کامیاب نوجوان جیسے منصوبے لے کر آئے، ٹیکس کلیکشن بھی ہمارے دور میں بہتر تھی،کسی بھی اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ہماری پرفارمنس سب سے بہتر ہے، ان کے آتے ہیں ایکسچینج ریٹ 182 سے 202 پر چلا گیا، آپ کی اسٹاک
ایکسچینج 3 ہزار 300 پوائنٹس گرگئی، شرح سود 3 سے 4 فیصد بڑھ گئی، اس کا مطلب ہے کہ کاروبار پر مزید بوجھ بڑھ گیا۔انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے ریکارڈ ریونیو پیدا کیا انہوں نے ان کو نکال دیا، چیئرمین ایف بی آر چلا گیا، چیئرمین واپڈا چلا گیا، ڈپٹی کمشنر پلاننگ چلا گیا، چیف اکانومسٹ بھی چلا گیا، اگر اس وقت ہم حکومت میں ہوتے تو سابق وزیراعظم عمران خان نے روس سے جو ڈائیلاگ شروع کیا تھا اس کی بدولت ہمیں بھی تیل پر
وہی 30 فیصد ڈسکاونٹ مل رہا ہوتا جو بھارت لے رہا ہے، کل بھارت نے پاکستانی روپے کے مطابق 25 روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت بھی کم کردی ہے، مگر ہم امریکا کو ناراض کرنے کی جرات نہیں کر پارہے۔شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف موجودہ حکومت پر اعتبار نہیں کررہی، اس لیے یہ اب ہم سے بھی مدد مانگ رہے ہیں، مارکیٹ فیصلے لینے کا مطالبہ کررہی ہے لیکن وزیرخزانہ یہاں بیٹھے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ
ابھی تک جتنی ایکسپورٹ ہونی چاہیے اتنی نہیں ہوئی، امپورٹ آئٹم پر پابندی حکومت کی گھبراہٹ کا ثبوت ہے، میں ہوتا تو میں بھی کچھ آئٹم کی امپورٹ پر پابندی ضرور لگاتا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ معاشی صورتحال کا ایک ہی حل ہے کہ ایک مضبوط عبوری حکومت لائی جائے اور الیکشن کروائیں، عبوری حکومت ہوگی تو ہم بھی اس کی مدد کریں گے۔سابق وفاقی وزیر نے کہا صحت کارڈ سالانہ 400 ارب کا پروگرام ہے جو ہمارے دور میں شروع
ہوا، کامیاب پاکستان، کامیاب نوجوان اور احساس پروگرام کے علاوہ ہم نے سڑکیں بھی بنائیں، موٹروے بھی بنائی، یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے عام افراد کی بہتری کے لیے کیا اقدامات اٹھائے۔شوکت ترین نے کہا کہ جمہوریت ایک تسلسل کا نام ہے، یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ ہر 2 سال بعد حکومت کو چلتا کردیا جائے، 5 سال مکمل ملنے چاہیے، اگر اس کو درمیان میں چھیڑا جائے گا تو ردعمل ضرور آئے گا، عمران خان کو زبردستی ہٹایا گیا، 10 اپریل کی رات
کو کروڑوں عوام نے سڑکوں پر نکل کر واضح کیا کہ یہ زیادتی ہوئی ہے، سیاست میں پولرائزیشن ضرور کم کرنی چاہیے لیکن مقتدر حلقوں کو بھی چاہیے کہ حکومتوں کو 5 سال مکمل کرنے دیے جائیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو کرپشن کے کسی الزام میں نہیں نکالا گیا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیراعظم نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کیا تھا، یہ ان کے گلے میں پڑ گیا۔انہوں نے کہاکہ 6 ہفتوں میں پرائس کنٹرول کی ایک بھی میٹنگ نہیں
ہوئی، لوگوں کو بھی پتا ہے کہ اوپر کوئی بیٹھا نہیں ہے اس لیے وہ موج کررہے ہیں اور اپمی مرضی سے قیمتیں وصول کررہے ہیں، ہمارے دور میں ایسا کچھ ہوتا تھا تو میں چیف سیکریٹریز کی پڑتال کردیتا تھا، جتنی اسیکپورٹ ہونی چاہیے تھی وہ ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔شوکت ترین نے کہا کہ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ نظام انصاف اتنا سست ہے کہ واضح ترین کیسز پر بھی وقت پر فیصلے نہیں ہوتے اور اس میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔بارودی سرنگوں
سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ سبسڈی کا اعلان 28 فروری کو کیا گیا تھا، انہوں نے تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کو جمع کروائی، کیا ہمیں خواب آگیا تھا کہ ان کی تحریک کامیاب ہوجائے گی اس لیے ہم نے اگلی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھا دیں؟انہوں نے کہا کہ اگر یہ اسے بارودی سرنگ کہہ رہے ہیں تو یہ کس قسم کے قابل لوگ ہیں جو ہمیں ہمیشہ نااہل کہتے رہے لیکن خود یہ فیصلہ واپس نہیں لے پارہے؟ اگر یہ اتنے ہی اہل ہیں تو
کوئی طریقہ نکالیں اور اسے رول بیک کردیں۔کرپشن کے الزامات کے حوالے سے شوکت ترین نے کہا کہ ہم اپوزیشن میں ہیں، اگر ہم نے کوئی کرپشن کی ہے تو کیسز لائے جائیں۔پر تعیش اشیا پر پابندیوں سے متعلق سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت گھبراہٹ میں ہے، موجودہ حکومت نے افراتفری کی صورتحال پیدا کردی ہے، میں ہوتا تو چند چیزوں کی درآمدات پر ہی پابندی لگاتا، یہ یہ تمام اشیا اسمگل ہوکر پاکستان میں آئیں گی۔