اسلام آباد(این این آئی)بھارتی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ بھارت کو امید ہے پاکستان کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف دو جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان برسوں کی کشیدگی کے بعد سفارتی تعلقات کا آغاز کریں گے۔غیر ملکی میڈیا ملکی رپورٹ کے مطابق عملی اور کاروبار دوست شخصیت کی پہچان رکھنے والے والے شہباز شریف کو ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے
مشکل چیلنجز کا سامنا ہے، ان کو درپیش چیلنجز میں سے ایک بڑا چیلنج پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا بھی ہے جبکہ دونوں ممالک گزشتہ 75 سالوں میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق شہباز شریف کا تعلق ایک ایسے سیاسی خاندان سے ہے جسے ہندوستان میں مفاہمت پسند سیاسی خاندان کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اپنے فوری پیشرو وزیراعظم عمران خان کے برعکس تنازعات کو پبلک میں اچھالنے اور اس کی مذمت کرنے کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے تیار ہے۔نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے بین الاقوامی علوم کے پروفیسر اجے درشن بہیرا نے کہا کہ شہباز شریف کوئی ایسے شخص نہیں جو بھارت کی مخالفت کی انتہا کر دے۔شہباز شریف نے 2013 میں پنجاب کے وزیر اعلی کے طور پر بھارت کا دورہ کیا تھا، پنجاب جو برصغیر کی 1947 کی خونی تقسیم میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہوگیا تھا۔شہباز شریف نے بھارتی پنجاب میں اپنے خاندان کے آبائی گاں کا دورہ کیا تھا اور اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ سے نئی دہلی میں دیگر حکام کے ساتھ ملاقات کی تھی اور نریندر مودی شریف خاندان کی شادی میں بھی شریک ہوئے تھے۔ہندو قوم پرست رہنما نے اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد 2015 میں پاکستان کا اچانک دورہ کیا تھا جہاں ان کی میزبانی شہباز شریف کے بڑے بھائی نواز شریف نے کی تھی جو خود اس وقت وزیراعظم پاکستان تھے۔اسلام آباد میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے تجزیہ کار امتیاز گل کے مطابق شریف برادران کے عمومی طور پر بھارتی رہنماں کے ساتھ خوشگوار تعلقات رہے ہیں اور بنیادی طور پر ہندوستان کیلئے بات چیت کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے یہ ایک اچھا انٹری پوائنٹ ہے۔نریندر مودی کے دورے کے بعد اعتماد سازی کیلئے بات چیت اور مذاکرات کے کئی دور ہوئے جن کا مقصد تعلقات کو بحال کرنا تھا جو 2008 میں ہونے والے ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد تعطل کا شکار ہو گئے تھے، ان حملوں کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگایا تھا۔2019 میں خطے کی سرحدوں پر کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا اور دونوں ممالک کے درمیان ایک اور مکمل جنگ کے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔اگست 2019 میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے دوران اقوام متحدہ کی قراردادوں کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازع کشمیر کے علاقے کی خود مختاری کو ختم کرنے کے ہندوستان کے یکطرفہ اقدام نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید خراب صورتحال سے دوچار کردیا تھا۔کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اقدام کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست تجارت معطل کر دی گئی تھی، بھارتی اقدام کو پاکستان نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر بھی تنقید کی تھی اور بھارتی اقدام کو روکنے کیلئے بین الاقوامی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا، نریندر مودی حکومت کے متعدد ناقدین نے بھارتی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے اسے متنازع علاقے میں
’’مسلمانوں کی نسل کشی‘‘کی ابتدائی علامات ہیں۔دہلی کے ایک سیاسی تجزیہ کار سوجیت دتہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی معزولی کے بعد شہباز شریف کے پاس تلخیاں بھلا کر آگے بڑھنے کا موقع ہے جبکہ بھارت کی جانب سے کسی بھی اقدام کو مثبت طور پر دیکھا جائے گا۔سیاسی تجزیہ کار سوجیت دتہ نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی اور تنازعات کے پرامن حل کے بنیادی سفارتی اصولوں پر مبنی نئے تعلقات کی ضرورت ہے۔،اس سے یقینا پاکستان اور ہندوستان دونوں کو مدد ملے گی
۔نریندر مودی نے وزیراعظم منتخب ہونے پر شہباز شریف کو ٹویٹر پر مبارکباد دی تھی اور خطے میں امن اور استحکام کی اپنی خواہش کا اعادہ کیا تھا۔شہباز شریف نے بھی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے، کشمیر کی متنازع حیثیت کے حل کے بغیر خطے میں کوئی پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔شہباز شریف نے کہا تھا کہ میں بھارتی وزیر اعظم مودی کو مشورہ دوں گا کہ ہم مسئلہ کشمیر کو حل کریں اور اپنی تمام توانائیاں اپنے ممالک میں خوشحالی لانے کے لیے
صرف کریں۔وزیر اعظم کے طور پر شہباز شریف کو بھاری قرضوں، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کمزور کرنسی کا مقابلہ کرنا پڑے گا جس نے پاکستان کی معیشت کو گزشتہ تین سالوں کے دوران مشکل صورتحال سے دوچار کر رہا ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے بین الاقوامی علوم کے پروفیسر اجے درشن بہیرا کے مطابق سنگین مالیاتی بحران شہباز شریف پر عمران خان کی حکومت کی جانب سے
بھارت کے ساتھ منقطع تجارتی روابط دوبارہ شروع کرنے کی اہمیت کو متاثر کرے گا۔انہوںنے کہاکہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر بنانے کے لیے معاشی صورتحال کا دبا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بہت مشکل وقت سے گزر رہا ہے، ان کے پاس زیادہ آپشن نہیں ہیں جبکہ ہندوستان کی حکومت کے لیے بھی کئی دہائیوں کی بداعتمادی اور دشمنی کے باعث غیر متوقع پریشانیوں کا خدشہ ہے۔انڈین ایکسپریس اخبار نے ایک نامعلوم سینئر حکومتی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ اگرچہ کافی مثبت علامات ہیں تاہم پاکستان کے ساتھ تعلقات بہت غیر متوقع ہیں اور صرف ایک دہشت گردانہ حملہ ان تعلقات کو مزید بگاڑ سکتا ہے،ہم دیکھیں گے اور ہر پیش رفت پرگہری نظر رکھیں گے۔