کابل(نیوزڈیسک) افغانستان میں امریکی سربراہی میں کام کرنے والے فوجی مشن کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ولسن شوفنرنے کہاہے کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیم داعش کی مسلح کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں لیکن ابھی تک یہ شدت پسندانہ حملے بظاہر غیر مربوط انداز میں کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی سربراہی میں کام کرنے والے فوجی مشن کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ولسن شوفنر نے کابل سے ٹیلی فون پر واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ عسکری حوالے سے داعش کو افغانستان میں اب ایک ایسا گروپ سمجھا جا رہا ہے، جو اپنی سرگرمیوں میں پھیلتا جا رہا ہے،انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امریکی قیادت میں سرگرم فوجی مشن کو یہ رپورٹیں تو مل رہی ہیں کہ داعش اب ہندو کش کی اس ریاست کے مختلف حصوں میں فعال ہے تاہم وہ ابھی تک اپنی کارروائیاں ایک غیر منظم انداز میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ولسن شوفنر نے صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان میں امریکا ابھی تک اس قابل نہیں ہے کہ داعش کے خلاف اس طرح کی مربوط عسکری کارروائیاں کر سکے، جیسی کہ اس دہشت گرد گروپ کے خلاف شام اور عراق میں کی جا رہی ہیں، تاہم امریکا اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس تنظیم کے پاس یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ مستقبل میں اور بھی زیادہ خطرناک بن کر ابھرے اور واشنگٹن ان خطرات کو بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے۔بریگیڈیئر جنرل شوفنر نے کہاکہ اس وقت یہ عسکریت پسند گروپ اس قابل نہیں کہ ایک ہی وقت میں افغانستان کے ایک سے زائد علاقوں میں کوئی مسلح کارروائیاں کر سکے۔ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ اس گروپ کی یہ محدود عسکری کارروائیاں ایسی مسلح جھڑپوں کی وجہ بھی بنی ہیں، جن میں سے زیادہ تر میں داعش کے جہادیوں کا مقابلہ افغان طالبان کے جنگجﺅوں سے تھا۔انہوں نے کہاکہ افغانستان میں اس وقت طالبان اور داعش کے مابین جو جھڑپیں دیکھنے میں آ رہی ہیں ان کی وجہ زیادہ تر یہ ہوتی ہے کہ داعش کے جہادی ان علاقوں میں مسلح مداخلت یا وہاں پر قبضے کی کوششیں کر رہے ہیں جہاں طالبان نے ایک عرصے سے اپنے قدم جما رکھے ہیں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں