کراچی (آن لائن) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت نے قرضے لینے کا اپنا ہی بنایا ہوا ریکارڈ توڑ ڈالا۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق حکومت نے 2020-21 میں 15.32 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیے جو ایک ریکارڈ ہے
جبکہ اس سے ایک سال قبل بھی 12.45 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لینے کا ریکارڈ قائم کیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے تین سال میں35.1 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے زریعے ملک پر عائد غیر ملکی قرضوں کا حجم تقریباً دگنا کر دیا ہے جس سے ملکی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے مطابق یہ قرضے کرنٹ اکائونٹ پر دبائو کم کرنے، زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے، سابقہ قرضوں کی ادائیگی اور واٹر سیکٹر کی ترقی کے لئے حاصل کے گئے ہیں۔ ان قرضوں میں سے پینتیس فیصد پاور پراجیکٹس، تئیس فیصد دیہی ترقی، اٹھارہ فیصد گورننس اور پانچ فیصد تعلیم پر لگائے گئے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کے متعلق منصوبہ بندی ناقص اور ترجیحات انتہائی ناقص ہیں۔ ایسی ترجیحات اپنائی گئی ہیں جو وسائل کے زیاں کا سبب ہیں اور ان ترجیحات نے ملک کو تقریباً دیوالیہ کر دیا ہے اور قرض اتارنے کے لئے مذید قرضے لینے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگلے سال بھی قرضے لینے کا سلسلہ جاری رہے گا جبکہ روپے کے زوال کی وجہ سے قرضوں کی حجم میں کھربوں روپے کا اضافہ ہوتا رہے گا جو جلد جی ڈی پی کے برابر ہو جائے گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت کو چائیے کہ قرضوں پر انحصار کے بجائے کاروباری برادری پر انحصار کرے۔ کاروبار میں حائل رکاوٹیں دور کرے اور متعلقہ اداروں کو کاروبارد وست بنائے تاکہ روزگار ، پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہو اور قرضے لینے کے بجائے قرضے اتارنے کے نئے دور کا آغاز کیا جا سکے۔