اسلام آباد(نیوزڈیسک) برطانوی جریدہ ”اکنانومسٹ“ لکھتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کوششیںبداعتمادی کی فضا سے ناکام ہوتی ہیں۔ جریدے نے لندن کے کنگز کالج کے والٹر لیڈوگ کے تحقیقی مقالے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ پاکستانی فوج بھارتی پالیسی سازوں کو روکنے کے لئے روایتی لحاظ سے کافی مضبوط ہے جو یہ سوچتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف اسٹریجک کامیابیاں یا معمولی خطرے کے اضافے سے انتہائی موثر فضائی حملے کرسکتے ہیں ،بھارت کی طرح پاکستان بھی جوہری طاقت ہے جو کسی بھی فوجی حساب کتاب کو یکسر تبدیل کرسکتا ہے۔حالیہ گورداسپور حملہ دونوں اطراف کے تعلقات کو دوبارہ برے ایام کی راہ پرلا کھڑا کیا۔پاکستان نے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی،مگر کچھ بھارتی حلقے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے پر لگے ہیں۔بھارت نے پاکستان پربھارتی پنجاب میں بدامنی کی کوشش کا الزام لگایا ہے۔ گورداسپورکا تازہ ترین حملے کاوقت واضح کرتا ہے کہ جب کبھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہونے لگتے ہیں ،کوئی اسپانسرشدہ دہشت گردی کا عمل دونوں ممالک کے زخموں کو دوبارہ ہرا کردیتا ہے۔بھارت میں یہ قیاس آرائیاں تھی کہ اوفا میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات صرف بین الاقوامی برادری کو دکھانے کیلئے تھی ،بھارت کی طرف سے یہ کوشش امریکا کو دکھانے کیلئے تھی کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسائل اور کشیدگی اس کی پیدا کردہ نہیں۔ جب کہ پاکستان چین کو یہ دکھانا چاہتا تھا کیونکہ چین چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن کیلئے پاکستان اور بھارت تعاون کریں اور اس کے لئے بھی کہ چین نے پاکستان میں 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ بین الاقوامی رائے عامہ کے مطابق ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ قصور وار کون ہے تاہم گورداسپور حملے پربھارت کا رد عمل نسبتاً کنٹرول میں ہے اور اس نے ابھی تک مجوزہ قومی سلامتی مشیر مذاکرات کو منسوخ نہیں کیے۔ وسیع پیمانے پر تجارت اور سرمایہ کاری روابط میں کمی کی وجہ سے اقتصادی دباﺅ بھی دو ہمسایہ ممالک کو تعلقات بہتر کرنے پرمجبورکرتا ہے۔ معمولی قسم کا فوجی رد عمل بھی بے قابو خطرات میں اضافہ کرتا ہے۔ جریدے کے مطابق دونوںوزرائے اعظم کے لئے سنگین اسباق ہیں، نواز شریف اور مودی کو یاد دہانیا ں کرائی گئیں ہیں۔نواز شریف خود قومی سلامتی کے معاملات پر پالیسی کا تعین نہیں کرتے۔ مودی کی راہ میں دہری رکاوٹیں ہیں، اول معیشت کی ترقی کیلئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا اور ملکی مفادات کے لئے کھڑے ہونا اور اشتعال انگیزی سے جواب دینا ہے۔من موہن سنگھ جب وزیر اعظم تھے تو مودی ان کی پالیسیوں کا توہین آمیز انداز میں مذاق اڑاتے تھے۔اب مودی کو امن کے قیام میں ویسی ہی مشکلات کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کی علاقائی سیاست میں انجماد اور کھلاﺅکے درمیان پگھلاﺅ کی مدت انتہائی مختصر ہوتی ہے ،بھارت اور پاکستان کے درمیان تازہ ترین مفاہمت کے لمحے تو انتہائی مختصر ٹھہرے۔گیارہ جولائی کو روس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اوران کے ہم منصب نواز شریف نے علاقائی کانفرنس کے موقع پر مشترکہ بیان پر دستخط کیے جسے ایک اہم پیش رفت قراردیاگیا۔ اس بیان میں دونوں اطراف کی جیلوں سے ماہی گیروں کو آزاد کرنے، قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان ملاقات اور مودی کا آئندہ برس سارک کانفرنس کے موقع پر پاکستان کا دورہ شامل تھا جو کسی بھی بھارتی وزیر اعظم کا 2004کے بعد پہلا دورہ ہوتا۔دونوں رہنما اپنے ممالک کو لوٹے ہی تھے کہ موڈ تلخ ہوگیا۔گورداسپور حملہ،پاکستان کی طرف سے ڈرون کا گرانا، لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور پشاور اسکول حملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت جیسے واقعات میں اوفا میں پیش رفت ایک رعایت لگ رہی ہے۔اس کے باوجود دونوں وزرائے اعظم نے کوشش کی۔گزشتہ برس مودی نے اپنے حلف نامے کی تقریب میں نواز شریف کو مدعو کرکے ایک جرات مندانہ اشارہ دیا۔مودی نے پرانے حریفوں کے لئے نیا نقطہ نظر کا وعدہ کیا ہے لیکن اپنے محدود اختیارات میں وہ اسے تلاش کر سکتے ہیں۔