دمشق (نیوزڈیسک) شام کے مطلق العنان صدر بشار الاسد کے بہی خواہوں کی طرف سے ان کی جعلی عوامی مقبولیت کو ثابت کرنے کے لیے آن لائن اور سوشل میڈیا پرشروع کی گئی 24ملین بوسے کی مہم بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔عرب میڈیا کے مطابق بوسوں کی مہم اپنی نوعیت کی منفرد ہی نہیں بلکہ عملا ناممکن بھی ہے۔ کیونکہ اس مہم کو آگے کیسے بڑھایا جاسکتا ہے۔ عالمی رائے عامہ ہموار کرنا اپنی جگہ اہم ہوگا مگر لوگوں سے بوسے آخر کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اس مہم کے مدارالمہام بھی نہیں دے سکے۔وہ صرف اتنا دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے 24 ملین لوگوں کے بوسے حاصل کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ یہ کیسے پوری ہوسکتی ہے۔ اس کے بارے میں وہ خاموش ہیں۔مبصرین کا خیال ہے کہ اس نوعیت کی مہمات محض اہم ایشوز سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہوسکتی ورنہ ایسی مہمات کبھی کامیاب ہوئی ہیں اور نہ ہی ہوسکتی ہیں۔ مہم کے روح رواں لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ چوبیس ملین بوسے مکمل کرائیں گے۔ بدقسمتی سے وہ چند سو بوسے بھی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔بشارالاسد کی عوامی مقبولیت ثابت کرنے والے لاکھوں لوگوں کے بوسوں کے دعوے دار سیکڑوں سے بھی محروم رہے ہیں۔ یہ مہم ایک ایسے وقت میں جاری ہے جب حال ہی میں دمشق میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ایک عالمی ابلاغی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔اس کانفرنس کے انعقاد تک چوبیس ملین تو کیا کانفرنس کے شرکا کے برابر بھی بوسے حاصل نہیں کیے جاسکے تھے۔ کانفرنس میں اندرون ملک سے بہت کم اور ایران اور بعض دوسرے ملکوں کے غیر شامی شرکا کی تعداد زیادہ تھی۔ ان سے بھی بشارالاسد کے لیے بوسے لیے گئے۔ اگرچہ دعوی ٰصدر اسد کی عوامی مقبولیت ثابت کرنے کا تھا مگرعملا عوام کی بہت کم تعداد نے اس میں کوئی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ایسی مہمات پر عوام کا کوئی رد عمل ہو یا نہ ہو مگر سوشل میڈیا پر وہ ضرور مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ 24 ملین بوسے والی مہم کی بھی سوشل میڈیا پر خوب درگت بن رہی ہے۔ مہم کی حمایت میں ڈھونڈھنے سے بھی کوئی رائے نہیں ملی مگر اس پر طنزو مزاح کے تبصروں کی بھرمار ہے۔ایک تبصرہ نگار کا کہنا ہے کہ لاکھوں بوسے لینے والے سیکڑوں سے بھی رہے۔ ایک صاحب نے لکھا کہ مردے بوسے نہیں دے سکتے۔ نیز آپ ان لوگوں سے بشارالاسد کو بوسے دلوانا چاہتے ہیں جو پہلے ہی انہیں کاٹ کھانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔اس مہم کے ساتھ ساتھ شامی صدر کے بعض حامی اخبارات بھی ان کے حق میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے سے باز نہیں آتے۔ اخبارات یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ یورپ اور عرب ممالک طویل بائیکاٹ کے بعد اب صدر اسد اور ان کی حکومت کے ساتھ اپنے رابطہ چینل بحال کررہے ہیں۔