ڈھاکہ(نیوز ڈیسک) بنگلہ دیش میں محکمہ جنگلات کے حکام نے کہا ہے کہ سندربن کے جنگلات میں پائے جانے والے شیروں کی تعداد میں ماضی کے مقابلے میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔بی بی سی کے مطابق اس وقت بنگلہ دیش کی حدود میں سندربن کا جو علاقہ آتا ہے وہاں صرف 106 شیر باقی بچے ہیں جبکہ بھارتی حدود میں یہ تعداد صرف 74 ہے۔دس برس قبل اس جنگل میں 440 شیروں کی گنتی کی گئی تھی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ تعداد میں اتنی کمی کی وجہ کھالوں اور دیگر اعضا کے حصول کے لیے ان شیروں کا منظم انداز میں غیرقانونی شکار ہے۔تاہم حکام نے کہا ہے کہ تعداد میں کمی کی وجہ سروے کے لیے بہتر تکنیک کا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ان کے مطابق حالیہ سروے میں شیروں کے پنجوں کے نشانات گننے کی بجائے جنگل میں نصب کیے گئے کیمروں سے مدد لی گئی جس سے کم تعداد تو سامنے آئی لیکن یہ اعدادوشمار بالکل درست ہیں۔بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے جنگلی حیات کے تحفظ کے ذمہ دار اہلکار تپن کمار دے کا کہنا ے کہ شیر شماری کا عمل ایک برس تک جاری رہنے کے بعد رواں برس اپریل میں مکمل ہوا اور اس دوران شیروں کی تعداد 83 سے 130 کے درمیان رہی جس کی اوسط 106 بنتی ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے تپن کمار کا کہنا تھا کہ ’یہ زیادہ درست ہندسہ ہے‘۔حالیہ سروے میں شیروں کے پنجوں کے نشانات گننے کی بجائے جنگل میں نصب کیے گئے کیمروں سے مدد لی گئی،اس سے پہلے بھارتی سندربن میں 74 شیروں کی گنتی کی جا چکی ہے۔ بھارت میں ان جنگلات کا تقریباً 40 فیصد حصہ واقع ہے۔خیال رہے کہ سندربن کے جنگلات دس ہزار کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور انھیں رائل بنگال ٹائیگرز کا گھر قرار دیا جاتا ہے۔یہ جنگلات معدومی کے خطرے سے دوچار ان شیروں کی دنیا میں آخری قدرتی پناہ گاہ تصور کیے جاتے ہیں۔بھارت میں مجموعی طور ہر 2200 سے زیادہ رائل بنگال ٹائیگرز ہیں جبکہ اس کے علاوہ ان کی کچھ تعداد بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، چین اور میانمار میں بھی پائی جاتی ہے۔بنگلہ دیش کی جہانگیر نگر یونیورسٹی میں زولوجی کے استاد اور شیروں کے ماہر پروفیسر منیرالخان کا کہنا ہے کہ نیا سروے ان کے خدشات کی تصدیق کرتا ہے۔اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا لگ رہا ہے کہ شیروں کی آبادی میں کمی ہمارے خدشات سے کہیں زیادہ ہوئی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو شیروں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ اس کمی کی وجہ غیرقانونی شکار اور جنگلات کے کناروں پر تعمیراتی و ترقیاتی سرگرمیاں ہیں۔خیال رہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ کا عالمی فنڈ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ شیر جنگلات میں معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں اور جہاں سنہ 1900 میں ان کی تعداد ایک لاکھ تھی وہیں اب یہ کم ہو کر 3200 رہ گئی ہے۔