اسلام آباد(نیوزڈیسک ) میکسیکن کیو فش دنیا کے ان چند جانداروں میں سے ایک ہے جو قدرتی طور پر اندھے ہوتے ہیں۔ قدرت نے اس کیو فش کو اندھا کیوں رکھا ہے، اس بارے میں تو تاحال معلوم نہیں ہوسکا ہے تاہم اس کی بسیار خوری کی تہہ تک ماہرین پہنچ چکے ہیں اور اندازہ ہے کہ اسی مدد سے وہ انسان میں بھی بسیار خوری کی اصل وجہ اور اس کے تدارک کیلئے کوئی انتظام کرلیں گے۔ میکسیکو کے سیاہ گہرے پانیوں میں پائی جانے والی یہ مچھلی سال میں دو بار صرف اسی وقت کچھ کھا پاتی ہے جب دریا میں سیلاب آئیں اور یہ اپنے ہمراہ مردہ مچھلیاں لائیں۔ اس کے بعد کیو فش انہیں کھانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ کیو فش کی یہ مصروفیت اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ یہ کھانا ختم نہیں ہوجاتا ہے۔ اس مچھلی کا میٹابولزم چونکہ سست ہوتا ہے، اس لئے یہ غذا چربی میں تبدیل ہوتی ہے اور پھر اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک کہ کھانے پینے کا نیا سٹاک نہ آجائے۔ یہ مچھلی اپنے رہن سہن اور کھانے پینے کی عادات کے لحاظ سے ماہرین کیلئے کسی عجوبے سے کم نہیں ہے۔ اب ماہرین نے اس کے جسم میں ایک جینیاتی نقص کا انکشاف کیا ہے جس کی وجہ سے انسانوں میں بھی موٹاپا پیدا ہوتا ہے۔ اسے ایم سی فور آر کہتے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کلفورڈ ٹیبن اور ان کے ساتھیوں کی یہ نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جرنل میں شائع ہوئی ہے جس کے مطابق انتہائی موٹاپے کا شکار بچوں میں بھی یہی ایم سی فور آر موجود ہوتا ہے۔ اسی کی وجہ سے یہ بچے پیدائش کے پہلے سال کے دوران ہی انتہائی وزنی ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی غذا پر قابو پانا بے حد مشکل ہوتا ہے، یہ مسلسل بھوکے رہتے ہیں اور کھانا طلب کرتے رہتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ہر ایک ہزار میں سے ایک بچہ اس مرض کا شکار ہوتا ہے اور موٹاپے کی وجہ بھی یہی ہوتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ انسانوں کے برعکس اس مچھلی کے جگر پر چربی چڑھتی ہے اور نہ ہی اس جینیاتی خرابی سے ہونے والے موٹاپے کا شکار افراد کی طرح جگر کے امراض لاحق ہوتے ہیں۔یہ مچھلیاں جب کھاتی ہیں تو ان کے جسم میں شکر کی سطح اس قدر خطرناک حد تک بلند ہوجاتی ہے کہ یہ خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ذیابیطس کا شکار ہیں تاہم وہ شوگر کا شکار بھی نہیں ہوتی ہیں۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ موٹاپے کے جینز ہونے اور بسیار خوری کے باوجود بھی دبلے رہنے کی وجہ یقینی طور پر دیگر جینز میں تبدیلیاں ہیں۔ ماہرین کو امید ہے کہ وہ ان کا جلد کھوج لگالیں گے اور اس کی مدد سے ایسی ادویات تیار کی جائیں گی جو کہ دراصل انسانی جینز میں بھی وہی تبدیلیاں لاسکیں گی جو کہ موٹاپے کا باعث بنتی ہیں۔ ماہرین پر امید ہیں کہ کیو فش انہیں اس منزل تک ضرور لے جائے گی جہاں پر موٹاپے کا شکار افراد اگر وزن کم کرنے میں کامیاب نہ بھی ہوئے تو بھی وہ ایک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ضرور ہوجائیں گے۔