اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک/این این آئی ) افغان سرزمین سے امریکی و نیٹو افواج کے نکلتے ہی کچھ ایسے مناظر سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں جسے دیکھنے کے بعد ہر کوئی حیرت میں پڑ گیا ہے ۔ افغانستان سے کئی ویڈیوز منظرعام پر آ رہی ہیں جن میں افغان فوج کو طالبان کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔دریں اثنا افغانستان میں طالبان کے قبضے میں جانے والے
علاقوں میں خواتین پر پابندیوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، جس کے بعد طالبان کے قبضے سے باہر علاقوں کی خواتین کی تشویش بڑھ گئی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کے صوبے بادغیس کے دارالحکومتقلعہ نومیں طالبان اور افغان فورسز میں شدید لڑائی جاری ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل سیکڑوں خواتین بندوقیں اٹھائے ہوئے طالبان کے خلاف لڑنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے شمالی اور وسطی افغانستان میں مارچ کرتی ہوئی سڑکوں پر نکلی تھیں۔قبل ازیں افغانستان کے وسطی صوبے غور میں سیکڑوں مقامی خواتین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں شریک خواتین نے بندوقیں تھام رکھی تھیں اور وہ افغان طالبان کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق غور صوبے میں خواتین ڈائریکٹریٹ کی سربراہ حلیمہ پرستش جو خود مظاہرے میں شامل تھیں انہوں نے کہا کہ بعض خواتین نے افغان فورسز کے واسطے علامتی حمایت کا یہ پیغام بھیجا ہے تاہم مظاہرے میں شریک متعدد خواتین نے باور کرایا کہ وہ لڑائی کے میدانوں میں جانے کے لیے تیار ہیں۔دوسری جانب جوزجان صوبے سے تعلق رکھنے والی ایک افغان خاتون صحافی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں کوئی عورت بھی واقعتا زمینی لڑائی نہیں چاہتی ہے تاہم ہم صرف اپنے سادہ ترین حقوق کے طالب ہیں مثلا میں تشدد سے دور رہتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کر لوں تاہم حالات نے ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیا،میں نہیں چاہتی کہ ملک ایسے لوگوں کے زیر کنٹرول ہو جو خواتین کے ساتھ دہشت ناک طریقے سے پیش آتے ہیں لہذا اس واسطے ہم نے ہتھیار تھام لیے کہ اپنی لڑنے کی صلاحیت باور کرا دیں ،میرے ساتھ درجنوں خواتین ہتھیاروں کا استعمال سیکھ رہی ہیں۔دوسری جانب غور صوبے کے گورنر عبد الزاہر وزادہ کا کہنا تھا کہ صوبے کے دارالحکومت فیروز کوہ کی سڑکوں پر نکلنے والی بعض خواتین واقعتا طالبان کے خلاف لڑ چکی ہیں۔ ان میں اکثریت کو طالبان کے تشدد کے سبب مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ان میں بعض خواتین اپنے بیٹوں اور بھائیوں وغیرہ کو پرتشدد واقعات میں کھو چکی ہیں۔دوسری جانب شیخ شہاب الدین دلاور کی قیادت میں طالبان کا وفد مذاکرات کے لیے روس کے دارالحکومت ماسکو پہنچ گیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق دو روزہ مذاکرات کے لیے ماسکو آئے طالبان کے وفد نے افغانستان کے لیے روسی مندوب ضمیر کابلوف سے ملاقات کی جس میں افغان امن عمل سے متعلق بات چیت کی گئی۔طالبان نے یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔واضح رہے کہ طالبان کا وفد ایسے وقت روس پہنچا ہے جب روس کے اتحادی تاجکستان کے سرحدی علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے اور تاجکستان نے اپنے 20 ہزار فوجی سرحد پر تعینات کردئیے جبکہ روس کے وزیرخارجہ کا کہناتھا کہ ان کا ملک تاجکستان میں موجود اڈے کو اپنے اتحادیوں کی حفاظت کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔