کراچی (این این آئی)بلیک منی چھپانے اور بینکوں کے بغیر بانڈز کیش کرانے کیلئے لوگوں نے ڈیلرز کی مدد حاصل کرلی ہے۔حکومت کی جانب سے40ہزار،25ہزار،15ہزار اورساڑھے سات ہزار روپے کے بانڈز کی واپسی کیلئے اب انہیں بینک اکاونٹس میں منتقل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔پرائز بانڈز اور کرنسیوں کی لین دین کے
مرکز بولٹن مارکیٹ سے منسلک پرائز بانڈز ڈیلرز کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے افراد بانڈز فروخت کررہے ہیں جن کے بینک اکاونٹس نہیں ہیں یا وہ بینک کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے گاہکوں سے 500روپے کمیشن لیتے ہیں۔ بولٹن مارکیٹ میں کمیشن قدرے کم ہے لیکن زیادہ بانڈز رکھنے والے بولٹن مارکیٹ فروخت کے بجائے کرنسی ڈیلرز کو فروخت کررہے ہیں، جو 3فیصد کمیشن پر بانڈز خریدتے ہیں، جب کہ بعض ایجنٹ 40ہزار روپے پر5ہزار روپے تک کی کٹوتی کرتے ہیں۔بینکنگ ذرائع کے مطابق ان سے بھی کئی جاننے والے بانڈز بینک اکاونٹس کے ذریعے کیش کرنے کے بجائے متبادل آپشن کا پوچھتے تھے لیکن ہم معذرت کرلیتے تھے کیونکہ قانونی طور پر تو کوئی متبادل انتظام نہیں تھا سوائے اس کے کہ کچھ لوگ دوستوں اور رشتہ داروں کے اکاونٹس کو بھی استعمال کررہے تھے لیکن اب ایسے افراد بانڈز اور کرنسی ڈیلرز کے ذریعے جتنے چاہے بانڈز کیش کرسکتے ہیں۔پرائز ڈیلرز تاریخ ختم ہونے کے بعد ان بانڈز کا کیا کریں گے؟اس سوال کے جواب میں ڈیلرز نے بتایا کہ پرائز بانڈز کے ڈیلرز کرنسی کے اور کرنسی کے ڈیلرز پرائز بانڈز کی بھی خرید وفروخت کرتے ہیں جب کہ ان ڈیلرز کی بڑی بڑی ایکس چینج کمپنیاں ہیں جن کیلئے ان بانڈز کو اپنی ملکیت ظاہر کرنا اور بینک اکاونٹس، دیگر بچت
سرٹیفیکٹس یا پریمیئم بانڈز میں منتقل کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کے مطابق ہمارے ہاں ہر قسم کی ان ڈیکلیئر منی کو بلیک منی تصور کیا جاتا ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے ہماری معیشت کا ایک بڑا حصہ غیر دستاویزی ہے جس کو دستاویزی معیشت میں شامل ہونے کے لئے آسان
راستے ہونے چاہیے تاکہ لوگ اپنی کمائی کو قانونی دائرے میں لاسکیں۔انہوں نے کہا کہ پرائز بانڈز کے معاملے میں بھی ایف اے ٹی ایف کے مطالبے پر پابندی لگادی گئی لیکن ان پرائز بانڈز میں ان ڈاکیومنٹیڈ منی کو ڈاکیومنٹیڈ کرنے کیلئے سہولت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے لوگ کم قیمت پر اپنے بانڈز فروخت کرنے پر مجبور رہے ہیں
اور اربوں روپے جو قانونی چینل میں آسکتے تھے،نہیں ہوسکیں گے۔ملک بوستان نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح صرف 11.6فیصد ہے جو بہت کم ہے لوگ ٹیکس نظام میں پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنا سرمایہ ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اپنے سرمائے کو ایسی جگہوں میں لگاتے ہیں جہاں پوچھا نہ جائے بانڈز میں بھی اسی وجہ سے سرمایہ بڑے پیمانے پر پارک کیا گیا تھا۔