حیدرآباد(آن لائن) سندھ ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ ، سندھ پبلک سروس کمیشن کو عملاً ختم کردیا ،سندھ پبلک سروس کے چیئرمین و ممبران کی تقرری ، ڈاکٹرز کے امتحانات ، تقرریاں کالعدم قرار ، سکریٹری و عملہ کو مستقل بنیاد پر معطل کردیا گیا ، ویب سائٹ بھی بند،سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ کے جسٹس ذوالفقار احمد خان اور جسٹس
محمد سلیم بجیر پر مشتمل بینچ نے سندھ پبلک سروس کمیشن سے متعلق محفوظ تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیاجس میں کہا گیا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کی تقرریاں قانون 2017ء کے مطابق غیر قانونی و غیر آئینی ہیں لہٰذا انہیں برطرف کیا جاتا ہے اور اسکے ساتھ تمام تقرریاں ، ٹینڈرز اورفنکشن بھی غیر قانونی قرار دے دیئے گئے جبکہ عدالتِ عالیہ نے سندھ بپلک سروس کمیشن کے سکرٹری و دیگر عملہ کی معطلی مستقل بنیادوں پر قائم رکھی ہے اور ایکٹ1982ء کے تحت انہیں مزید کام کرنے سے روک دیا ہے عدالت عالیہ نے 2018-19ء میں بی پی ایس17کے لیے1783 مرد و خواتین ڈاکٹرز کے تقرر کا اشتہار ،امتحانی نتائج اور ان کی تقرریاں کالعدم قرار دے دی ہیں عدالتِ عالیہ نے2018ء کے بعد اسسٹنٹ کمشنرز ، مختیار کار ، اے ایس آئی وغیرہ کی امتحان میں کا میابی اور تقرری کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے عدالت نے کہا ہے کہ ایسے افرادجن کا مختلف اداروںمیں تقررہوگیا تھا وہ اب دوبار قانون کے تحت اپنی قابلیت کے مطابق امتحان پاس کرکے اپنا نیا تقرر کراسکتے ہیں سندھ پبلک سروس کمیشن کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ امتحانات و تقرریاں کا طریقہ کار اور اپنا نظام صاف و شفا ف بنائے قابلیت کو فروغ دیا جائے اس سلسلہ میں وہ آسٹریلیااور نیوزی لینڈ کے پبلک سروس
کمیشن کے طریقہ کار سے استفادہ کرسکتے ہیں سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پبلک کمیشن کو بار بار موقع دیا کہ وہ اپنا طریقہ کار بہتر اور قابلیت پر بنائے لیکن ایسا نہیں ہو سکا عدالتِ عالیہ نے سندھ پبلک سروس کمیشن کی آفیشل ویب سائٹ بھی بند کرادی ہے واضح رہے کہ کمیشن کے چیئر مین نور محمد جادمانی بیرونِ ملک چلے گئے جنہیں
عدالت نے پہلے ہی معطل کردیا تھا جبکہ سکریٹری سید عطااللہ شاہ کوئی نیا میکنزم عدالت میں پیش کرنے میں مکمل ناکام رہے مذکورہ مقدمہ میں ایڈوکیٹ سجاد چانڈیو اور دیگر کے توسط سے 7متاثرہ طالبات اور دیگر نے عدالت عالیہ میں سندھ پبلک سروس کمیشن میں رشوت ، اقربا پروری اور بے قاعدگیوں کے خلاف درخواست دائرکی تھی۔