واشنگٹن(این این آئی )جب کوئی مریض کووڈ 19 کے نتیجے میں ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں پہنچتا ہے تو ڈاکٹروں کے پاس یہ پیشگوئی کرنے کے ذرائع بہت کم ہوتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اس کی حالت کیا ہوسکتی ہے تاہم خون کے ٹیسٹوں کے ذریعے اس بارے میں جاننا ممکن ہوسکتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آئی۔
یالے یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کے ٹیسٹوں سے ایسے بائیومیکرز کی شناخت کی جاسکتی ہے جو خون کے خلیات کے متحرک ہونے اور موٹاپے سے منسلک ہوتے ہیں، جن سے کووڈ 19 کے مریضوں میں بیماری کی شدت کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔ محقق ڈاکٹر ہیونگ چون نے بتایا کہ ان افراد میں یہ حیاتیاتی سگنلز کی سطح زیادہ ہوتی ہے، ان کا آئی سی یو میں داخلے، وینٹی لیٹر کی ضرورت یا موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔اس سے قبل بھی تحقیقی رپورٹس میں کووڈ 19 کی ممکنہ سنگین بیماری کی شناخت کے لیے ڈی۔ ڈیمیر اور مدافعتی پروٹینز کی نشاندہی کی گئی تھی۔تاہم اب تک ایسا کوئی ٹیسٹ تشکیل نہیں دیا جاسکا تھا جو کووڈ کے مریضوں میں بیماری کی شدت کی پیشگوئی کرسکے۔اس تحقیق کے لیے محقین نے کووڈ کے 100 مریضوں کے خون میں متعدد پروٹینز کی اسکریننگ کرکے دیکھا گیا کہ ان میں بیماری کی شدت کیا ہوسکتی ہے۔تمام مریضوں کے خون کے نمونے ہسپتال میں داخلے کے پہلے روز لیے گئے، جبکہ یالے نیو ہیون ہاسپٹل سسٹم میں زیرعلاج 3 ہزار سے زیادہ مریضوں کے کلینیکل ڈیٹا کا تجزیہ بھی کیا گیا۔انہوں نے دریافت کیا کہ 5 پروٹینز ریزیزٹن، لپوکالن 2، ایچ جی ایف، آی ایل 8 اور جی سی ایس ایف خون کے سفید خلیات کی ایک قسم نیوٹروفیلزسے منسلک ہوتے ہیں، جن کی سطح کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد بڑھ جاتی ہے۔ان میں سے بیشتر پروٹینز کو ماضی میں موٹاپے سے بھی جووڑا جاتا رہا ہے مگر کووڈ یا کسی وائرل بیماری سے تعلق پہلی بار سامنے آیا ۔تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ بائیو میکرز ایسے مریضوں میں بڑھ جاتے ہیں جن میں علامات بھی ظاہر نہ ہوں مگر بعد میں بیماری کی شدت سنگین ہوگئی۔اسی طرح ان بائیومیکرز کی شرح ان افراد میں کم ہوتی ہے جن میں بیماری کی شدت معتدل رہتی ہے اور ان میں سے کسی کی موت بھی واقع نہیں ہوئی۔محققین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے جب دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے خون میں موجود پروٹینز کی سطح سے بیماری کی شدت کی پیشگوئی کافی پہلے کی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پیشگوئی جلد کرنا مریض کے علاج میں زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر تشخیصی ٹیسٹ (ان بائیو میکرز کا)کو جلد کرلیا جائے تو زیادہ بہتر احساس ہوسکے گا کہ کس فرد کو شدید بیماری کا سامنا ہوسکتا ہے، تاکہ اس کی زیادہ نگہداشت کی جاسکے۔تحقیق میں کووڈ 19 اور موٹاپے کے درمیان تعلق پر بھی زور دیا گیا۔محققین نے بتایا کہ موٹاپے اور کووڈ کے درمیان تعل قابل فہم ہے کیونکہ دونوں میں جسم میں ورم پھیلتا ہے جو جسم کے اندر تباہی مچاتا ہے۔