کراچی(این این آئی)شہر قائد میں سالانہ آمدنی کم ہونے کے باوجود مہنگی گاڑیاں رکھنے والوں کی شامت آگئی۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں ایف بی آر بے نامی زون نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے مزید 6 بے نامی گاڑیوں کا پتا لگالیا۔ذرائع کے مطابق 2 کم آمدنی والے افراد کے نام پر 6 مہنگی گاڑیاں رجسٹرڈ ہونے کا انکشاف ہوا ہے،
عبدالحکیم۔ عمیر سکندر کے نام پر تین، تین قیمتی گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔اینٹی بے نامی زون کے مطابق عمیر سکندر کے شناختی کارڈ پر ایک لینڈ کروزر، دو کورولا رجسٹرڈ ہیں جبکہ عبدالحکیم کے شناختی کارڈ پر ایک اوڈی، جیپ، پریمیو کی رجسٹریشن کی گئی۔ذرائع کے مطابق دونوں افراد کی سالانہ آمدنی کم ہے لیکن انہوں نے مہنگی گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں۔اینٹی بے نامی زون ذرائع کے مطابق دونوں افراد کے بینک اکاؤنٹس، جائیداد کی بھی چھان بین شروع کردی گئی ہے، ذرائع آمدن نہ دینے پر قوانین کے تحت گاڑیوں کی ضبطگی ہوگی۔اینٹی بے نامی زون حکام کے مطابق ذرائع آمدن نہ دینے پر گرفتاری عمل میں لائی جاسکتی ہے۔دوسری جانب پروفیشنل ریسرچ فورم کے چیئرمین سید حسن علی قادری نے کہا ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان ملک کی ترقی کیلئے واقعی ایف بی آر میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں،تو سب سے پہلے یہ ہدایت دیں کہ غلطیوں سے پاک انکم ٹیکس ریٹرن یکم جولائی کو ایف بی آر کے پورٹل پر موجود ہونی چاہیے اور 30ستمبر کے بعد کوئی ریٹرن قبول نہ کی جائے،ٹیکس دہندگان کی تعداد کو پچاس لاکھ تک لے جانے کے لئے ٹیکس ریٹس سنگل ڈیجٹ کر دئیے جائیں اور انکم ٹیکس ریٹرن کو سہل بناتے ہوئے ون صفحہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہارا نہوں نے ٹیکس کنسلٹنٹس کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر اصدر ریسرچ فورم علی احمد احسان،سید سمیر علی قادری۔عامر محمود،فیضان مغل اورلاہور چیمبر کے نمائندے بھی موجود تھے۔ سید حسن علی قادری نے کہا کہ عوام خودبھی معیشت کو دستاویزی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن بد قسمتی سے بیوروکریسی اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،کرپشن کو ختم کیے بغیر سسٹم
کو درست نہیں کیا جا سکتا،موجودہ ٹیکس دہندگان کو پانچ سال کیلئے آڈٹ سے استثنیٰ دینا چاہیے اور پوری ٹیکس مشینری کو نئے ٹیکس دینے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے دن رات ایک کرنا چاہیے،پچیس لاکھ ٹیکس فائلر کیلئے صرف ایک ریٹرن ہونی چاہیے،انکم ٹیکس ریٹرن،سیلز ٹیکس ریٹرن، کارپوریٹ ریٹرن،ودہولڈنگ
سٹیٹمنٹ،ویلتھ سٹیٹمنٹ ودیگر ذمہ داریوں سے ٹیکس دہندگان کو آزاد کرکے اس کا اعتماد بحال کریں اور دعوے سے کہتا ہوں کہ اس سے پاکستان کو قرضوں کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔یہی پاکستانی جو فلاحی کاموں کیلئے کروڑوں،اربوں دے کر اپنا نام بھی ظاہر نہیں کرتے کیا یہ لوگ پاکستان کا ایک سو اکتالیس ہزار ارب کا قرضہ نہیں اتار سکتے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ انہیں یہ اعتماد ہو کہ ان کا پیسہ ملک وقوم پر خرچ ہو رہا ہے۔