یہ ایک بہت مختصر اور زبردست کہانی ہے جو آپ کو با آسانی سمجھا دے گی کہ سٹاک مارکٹ میں کیا ہوتا رہتا ہے اور وہ کیسے چلتی ہیں۔ ایک انگریز ایک گاؤں میں گیا اور ادھر جنگل میں بندر دیکھ کر اس نے تمام لوگوں میں اعلان کر دیا کہ جو کوئی بھی مجھے ایک بندر لا کر دے گا میں اسے دس ڈالر دوں گا۔ اس کی بات سن کر بہت سے گاؤں والے جنگل میں گئے اور روز بھر بھر کر بندر پکڑ پکڑ کر لانے لگے۔
وہ بندروں کو ایک بڑے سے پنجرے میں بھرتا جاتا۔ اسنے دیکھا کہ بتد ریج ان کی سپلائی کم ہونا شروع ہو گئی تو اس نے گاؤں والوں کو اکٹھا کیا اور اعلان کر دیا کہ آج کے بعد ہر ایک بندر کے عوض میں تمہیں بیس ڈالر انعام دوں گا۔ سارے لوگ ایک بار پھر سے متحرک ہو گئے اور بندر پکڑ پکڑ کر لانے لگے۔ وہ ان بندروں کو پنجروں میں بھرتا جاتا۔ ایک بار پھر اسے لگا کی بندروں کی سپلائی کم ہو گئی ہے اور گاؤں والے اپنے کھیتوں کی دیکھ بھال اور گھر کے کام کاج میں جت گئے ہیں تو اس نے اعلان کر دیا کہ آج سے ہر بندر کے عوض پچیس ڈالر دیا کروں گا۔ لوگوں کے کانوں پر اس دفعہ جوں تک نہ رینگی تو وہ انگریز شہر کا ایک چکر لگا کر آیا اور اپنے ایک ملازم انگریز کو ادھر سے ساتھ لے آیا۔ اس نے لوگوں سے بولا کہ اب میں ہر بندر لانے پر تیس ڈالے انعام دوں گا۔لیکن مجھے کچھ بہت ضروری کام نمٹانے ہیں تو مجھے اس کے لیے ایک بار پھر شہر کا چکر لگانا پڑے گا۔ اس دوران میرا یہ لڑکا آپ سے سودا کرتا رہے گا۔ اس کے جاتے ہی اس لڑکے نے گاؤں والوں کو اکٹھا کیا اور اعلان کر دیا کہ جو کوئی بھی ایک بندر خریدے گا میں اسے صرف پینتیس ڈالر میں دے دوں گا اور جب میرا مالک واپس آجا ئے تو کوئی اسے مت بتانا۔ پھر جب وہ واپس آئے گا تو ہم مل کر ہر بندر کا ریٹ پچاس ڈالر لگا لیں گے۔ جو بندر تم لوگ ابھی پینتیس ڈالر میں خرید رہے ہو وہ تم اسے پچاس ڈالر میں بیچ دینا۔ کیا خیال ہے؟ گاؤں والوں کو لگا کہ اب تو ویسے بھی جنگل میں بندر ختم ہونے کو آئے تھے اور اگر وہ ابھی پینتیس ڈالر میں یہی بندر خرید لیں اور دوسرے انگریز کو پچاس ڈالر کے عوض بیچ دیں تو ان کو پورے پندراں ڈالر کا منافع ہو گا۔ انہوں نے ہامی بھر لی اور آدھے سے زیادہ گاؤں والوں نے بندر پینتیس ڈالر میں خرید لیے۔ اب جب اگلی صبح کا سورج طلوع ہوا تو گاؤں والے پریشان تھے کیونکہ سارے پنجرے خالی تھے اور نہ تو اس دن کے بعد انہیں کبھی وہ انگریز ادھر نظر آیا اور نہ ہی اس انگریز کا لڑکا۔اسی طرح سٹاک مارکٹ اپنے شئیر سستے داموں بیچتی ہیں اور ان کے ریٹ بڑھاتی جاتی ہیں اور لوگ بے وقوفوں کی طرح ان کے شئیر جمع کرتے جاتے ہیں اور جب کمپنی کے شئیر اصل میں کسی بھاری منافع کا باعث بننے لگتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ یا تو کمپنی گورنمنٹ کو دے دی اور اسے پبلک بنا دیا یا کمپنی ہی ختم ہو گئی۔ اس طرح کے جھمیلوں میں پڑ کر یہ سوچنا کہ زیادہ اور جلدی منافع مل جائے گا، اس سے بہت بہتر ہے کہ انسان چپ کر کے اپنا کاروبار یا جاب کر لے۔ اپنا کاروبار بہت اوکھا کام ہے کیونکہ کئی سال مسلسل دیکھ بھال اور پیسہ انویسٹ کر کے ہی کوئی اپنا کروبار کھڑا کر سکتا ہے لیکن بعد میں وہ گھر بیٹھ کر آرام کر سکتا ہے جبکہ جاب کا مطلب ہے کہ ساری عمر تھوڑی تھوڑی محنت کرتے رہو اور تھوڑے تھوڑے پیسوں سے گزارہ چلاتے رہو۔ اب یہ دونوں راستے ٹھیک ہیں اس میں کوئی اس بندر بزنس جیسی چالاکی یا نقصان تو نہیں ہوتا نا۔