لاہور (آن لائن) ایشیائی ترقیاتی بنک ، ایشیائی پراڈکٹوٹی آرگنائیزیشن اور سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی ‘سمیڈا’ کی ایک مشترکہ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا میں کووڈ۔19 کے اثرات سے نمٹنے میں اپنی ایس ایم ایز کی بہترین مدد کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر شمار کیا گیا ہے۔ سمیڈا ترجمان کے مطابق ایشائی ترقیاتی بنک انسٹی ٹیوٹ اور
ایشیائی پراڈکٹوٹی آرگنائزیشن نے علاقے میں انڈونیشیا، بھارت، بنگلہ دیش، ملائشیا اور ویت نام سمیت مختلف ممالک کی طرف سے کووڈ۔19 سے متاثرہ ایس ایم ایز کی امداد کے حوالے سے ایک آن لائن سروے کیا جو اگست 2020 سے شروع ہو کر ستمبر2020 تک جاری رہا جس میں سمیڈا کے توسط سے پاکستان کی 236 ایس ایم ایز نے حصہ لیا۔سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کووڈ بحران کی وجہ سے 82 فیصدی کاروباری اداروں یعنی اکثریتی اداروں نے کیش فلو کے حوالے سے مشکلات بیان کیں جبکہ 65 فیصدی نے خام مال کی کمی کی شکائت کی ۔ سیلز کے حوالے سے پاکستان کی 12.29 فیصدی ایس ایم ایز نے کہا کہ انکی سیلز میں کوئی فرق نہیں آیا جبکہ 11.44 فیصدی نے بتایا کہ انکی سیلز سے آنے والی آمدن سال 2019 کے مقابلے میں بڑھ گئی تھی۔سروے کی مزید تفصیلات کے مطابق گزشتہ برس فروری اور اپریل کے دوران کووڈ۔19کی وجہ سے کاروباری فضا میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں جنوبی ایشیا کے اندر حکومت پاکستان نے بہترین کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 36.34 فیصدی ایس ایم ایز نے مقامی ڈیمانڈ میں نمایاں کمی کی شکائت کی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی72.29 فیصدی ایس ایم ایز نے ، بھارت میں 50فیصدی نے اور انڈونیشیا میں 63.5 فیصدی ایس ایم ایز نے مقامی منڈیوں میں ڈیمانڈ کی واضح کمی بتا ئی ۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اپنی ایس ایم ایز کو بجلی کے بلوں میںسبسڈی کی فراہمی نے صنعتی بقا میں بہت مدد کی اور مذکورہ سروے میں 27فیصدی ایس ایم ایز نے برملا اس کا اعترف کیا ہے جبکہ دیگر ملکوں میں ایس ایم ایز کو اس نوع کی مدد فراہم نہیں کی گئی ۔البتہ وہاں نئے قرضوں کے اجرا اور پرانے قرضوں کی ادائیگی میں مہلت جیسی سہولتیں فراہم کی گئیں تاہم سروے میں شامل ہر ملک کی ایس ایم ایزنے ایک مشترکہ مطالبہ کیا ہے کہ کووڈ ۔19 سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے کاروباری اداروں کوٹیکسوں کی ادائیگی میں چھوٹ دی جانی چاہیے اور یوٹیلٹی بلوں اور ٹیکسوں کی شرح میں بھی کمی کی جانی چاہیے۔یاد رہے کہ مذکورہ سروے کی مکمل رپورٹ سمیڈا کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔