اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینٹ انتخابات، صدارتی آرڈیننس دو صورتوں میں غیر ضروری ہوجائیگا۔ سپریم کورٹ نے ایڈوائس نہیں دی یا ، خفیہ بیلٹ کی تائید کی تو آرڈیننس ماضی کا حصہ بن جائیگا۔ روزنامہ جنگ میں طارق بٹ لکھتے ہیں کہ سینٹ انتخابات میں اوپن بیلٹ کے حوالے
سے مشروط صدارتی آرڈیننس دو صورتوں میں غیر ضروری ہوجائے گا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے مارچ میں سینیٹ انتخابات سے قبل صدارتی ریفرنس پر اپنی ایڈوائس نہیں دی یا کہا کہ آئین اس طرح کے انتخابات میں خفیہ بیلٹ کا کہتا ہے تو آرڈیننس ماضی کا حصہ بن جائے گا۔ وہ آئندہ سینیٹ انتخابات کے لیے غیر موثر اور قابل عمل نہیں رہے گا۔ لہذا آئندہ سینیٹ انتخابات جیسا کہ 1985 سے ہوتا رہا ہے وہ خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہی ہوں گے۔ تاہم، اگر سپریم کورٹ یہ کہے کہ اس طرح کا انتخابی عمل آرٹیکل 226 کے دائرہ کار میں نہیں آتا یعنی ایوان بالا میں اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابی عمل پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو آرڈیننس قابل عمل رہے گا اور موجودہ انتخابات کے ساتھ مستقبل پر بھی اس کا اطلاق ہوگا۔ مذکورہ آرٹیکل کے مطابق، آئین کے تحت وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے سوا تمام انتخابات خفیہ بیلیٹ کے ذریعے ہوں گے۔ حکومت نے صدارتی ریفرنس میں موقف اختیار کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین
کے آرٹیکل 226 کے دائرہ کار میں نہیں آتے بلکہ الیکشنز ایکٹ 2017 ہونے چاہئیں لہذا اس کا انعقاد اوپن بیلٹ کے ذریعے ہونا چاہیے۔ ایک قانونی ماہر کا کہنا تھا کہ یہ آرڈیننس مفروضے کی طرح کا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کا
انعقاد کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ تاہم، انہوں نے اس حوالے سے تضاد کا حوالہ بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو قومی اسمبلی میں 26 ویں آئینی ترمیم کا اقدام کیا جاتا ہے، جو واضح کرتا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین میں ترمیم بالخصوص آرٹیکل 226 میں ترمیم کے
بغیر اوپن بیلٹ کے ذریعے نہیں ہوسکتے۔ جب کہ دوسری جانب وہ الیکشنز ایکٹ کو تبدیل کرتے ہوئے آرڈیننس نافذ کرتی ہے اور آئینی مسئلے کا حل سپریم کورٹ پر چھوڑ دیتی ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت نے بل پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں پیش کیا، جس پر گزشتہ ہفتے اپوزیشن نے سخت تنقید کی۔ اس بل کے پارلیمنٹ سے پاس ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ آرڈیننس کا قابل عمل حصہ الیکشنز ایکٹ 2017 میں دو شقیں شامل کرتا ہے۔