لندن (این این آئی) برطانیہ کے جج سر انتھونی ایونز نے براڈشیٹ ایل ایل سی کیس میں کوانٹم پر دسمبر 2018 کے آخری ایوارڈ میں یہ آبزرو کیاہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب)نے سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کو ہدف کے طور پر شامل کرنے پر کبھی اتفاق نہیں کیا کیونکہ انہوں نے
شریف خاندان سے تعلق رکھنے والے اثاثوں پر سال 2000-1 کے دوران بیورو کی کچھ مدد کی تھی۔کوانٹم ایوارڈ میں نوٹ کیا گیا کہ کوانٹم ایوارڈ کی سماعت کے گواہ طلعت گھمن، جو 2004 تک نیب میں رہے، نے اپنی گواہی میں کہا کہ نیب اسحق ڈار کو شامل کرنے پر کبھی بھی راضی نہیں ہوا اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسحق ڈار نے 2000-1 میں شریف خاندان کے اثاثوں کے بارے میں نیب کی کچھ مدد دی کی تھی۔اسحق ڈار نیب کے قیام سے پہلے ہی سے ایک معروف سیاستدان تھے اور اس پورے عرصے میں یہاں تک کہ آج تک ان کی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ قریبی وابستگی رہی ہے۔ایوارڈ میں یاد دلایا گیا کہ سابق وزیر پاناما پیپرز کیس کے دوران 2017-18میں سپریم کورٹ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی)کی تحقیقات کا حصہ بھی بنے تھے۔وہ نیب اور براڈشیٹ ایل ایل سی کے درمیان جون 2000 کے دستخط شدہ اثاثہ جات ریکوری معاہدے )اے آر اے(میں رجسٹرڈ افراد کی فہرست میں شیڈول ون پر کبھی شامل
نہیں تھے تاہم ان کا نام براڈشیٹ کی جانب سے 12 اگست 2000 کے خط میں پیش کردہ فہرست میں اور 5 جنوری 2001 کو ایک اور براڈشیٹ کے نیب کو بھیجے خط میں شامل تھا۔ایوارڈ کے مطابق جواب دہندگان )نیب(کی جانب سے سماعت کے دوران کہا گیا کہ اس بات کا کوئی
ثبوت نہیں ہے کہ وہ اس فہرست میں شامل کرنے پر کبھی راضی تھا جیسا کہ اے آر اے کی شق 1.2 کی ضرورت تھا۔اس میں مزید کہا گیا کہ اسحق ڈار کی شمولیت سے متعلق یا دیگر صورت سے متعلق متعدد طریقہ کار کے امور اور ان کی متعلقہ اختتامی گزارشات کو کوانٹم سماعت کے
دوران اٹھایا گیا، اگست 2016 کی سماعت کے بعد دعویدار (براڈشیٹ)نے رجسٹرڈ افراد کی ایک فہرست تیار کی جس میں اسحق ڈار کا نام بھی شامل تھا تاہم مدعہ علیہان )نیب(نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ایوارڈ میں یاد دلایا گیا کہ واجبات ایوارڈ میں فیصلے کے لیے متفقہ معاملات میں سے
ایک اے آر اے کے شیڈول ون کی صحیح تعمیر تھی جہاں افراد یا اداروں کو اے آر اے کی شق 1.2 کے تحت اہداف کے طور پر رجسٹرڈ کیا گیا تھا، مزید یہ کہ اگرچہ لائبلٹی ایوارڈ نے فریقین کی فہرست پر کام نہیں کیا، اس میں متفقہ فہرست کے حوالہ جات شامل تھے۔ایوارڈ میں کہا گیا کہ
فریق نے عرض کیا کہ اسحق ڈار کی شمولیت کے معاملے میں دعویدار کو معاملہ اٹھانے سے روک دیا گیا ہے اور اس کی طرف سے کوانٹم سماعت کے پہلے دن فریقین کو اشارہ کیا گیا کہ وہ اس مسئلے سے متعلق اپنے مقف پر غور کرنا چاہیں گے، اس سلسلے میں مزید کوئی درخواست نہیں دی گئی۔
ساتھ ہی ایوارڈ میں یہ بھی کہا گیا کہ تیسرے گواہ طلعت گھمن نے اپنے بیان میں گواہی دی ہے کہ نیب نے کبھی اس پر اتفاق نہیں کیا کہ اسحق ڈار ایک رجسٹرڈ ہدف ہوسکتے ہیں اور یاد دلایا کہ جب وہ نیب میں تھے )اگست 2004 تک( اسحق ڈار کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہوئی تھیں،
آخر میں ایوارڈ نے یہ سمجھا کہ اسحق ڈار کبھی بھی اے آر اے کے تحت رجسٹرڈ ہدف نہیں تھے۔جب اپریل 2007 میں آئل آف مین میں رجسٹرڈ براڈشیٹ کو باضابطہ طور پر تحلیل کیا گیا تو نیب کی نمائندگی کرنے والے وکیل احمر بلال صوفی اور دوسری کمپنی انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری)آئی اے آر(
کے ایسوسی ایٹ جمی جیمز کے درمیان بات چیت جاری تھی جنہوں نے اے آر اے کی طرح کا معاہدہ کیا تھا تاہم اس میں دنیا کے دیگر حصوں کو بھی شامل کیا گیا تھا اور اسی وقت سال 2000 میں جب وہ براڈ شیٹ کی طرف سے اے آر اے میں داخل ہوئے تھے۔اس کے علاوہ ایوارڈ میں
کہا گیا کہ جمی جیمز نے براڈشیٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ انکشاف کیے بغیر کہ یہ کمپنی لیکوئڈٹی میں ہے اور حال ہی میں باضابطہ طور پر تحلیل ہوئی ہے، نیب کے ساتھ تصفیہ کے معاہدے پر بات چیت کرنے لگے جس کی نمائندگی ایڈووکیٹ احمر بلال صوفی نے کی۔ایوارڈ کے
مطابق ایسا کرنے کے ان کے مقصد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت انہوں نے کولوراڈو کی ایک نئی کمپنی تشکیل دی)جسے براڈشیٹ بھی کہا جاتا ہے(جس کی نمائندگی وہ براڈشیٹ ایل ایل سی کی جگہ لینے والی کمپنی کی حیثیت سے کررہے تھے، جب معاہدے پر 20 مئی 2008
کو دستخط ہوئے تھے تو یہ کہا گیا تھا کہ براڈشیٹ یا اس کے لیکویڈیٹر کو نہیں بلکہ براڈشیٹ کولوراڈو کو نیب اے آر اے کے تحت کیے گئے دعوے کے تصفیے میں مجموعی طور پر 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کرے گا جو جمی جیمز کے ذاتی طور پر کنٹرول میں تھی۔ایوارڈ میں کہا گیا کہ جب یہ
حقائق براڈشیٹ ایل ایل سی کے کاوے موسوی کو معلوم ہوئے تو انہوں نے براڈشیٹ کو تحلیل کرنے کے لیے اقدامات کیے اور ایک نیا لیکوئڈیٹر مقرر کیا جس نے نیب کے خلاف ثالثی کی کارروائی کا اختیار دیا۔ایوارڈ کے مطابق تصفیہ کا معاہدہ ایک ایگزیکٹو فیصلے کے ذریعہ نیب کے
اختیار میں کیا گیا تھا جس میں احمر بلال صوفی ملوث نہیں تھے اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ فیصلہ کرنے والے کون تھے۔یہ بھی کہا گیا کہ تصفیے کے معاہدے کے تحت 15 لاکھ ڈالر ادا کرنے کے علاوہ 2008 میں نیب نے آئی اے آر کے ذریعہ اس دعوے کے حل میں بھی تقریبا
22 لاکھ 50 ہزار ڈالر ادا کیے۔دریں اثنا احمر بلال صوفی نے ایک بیان میں واضح کیا کہ وہ پاکستان ہائی کمیشن کے اجلاس میں نہ تو لندن میں موجود تھے اور نہ ہی انہیں اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لہذا انہوں نے جیری جیمز کو چیک کے ذریعے ادائیگی نہیں کی۔اگست 2016 کے
آخری ایوارڈ، جو شواہد پر مبنی تھا، نے یہ بھی ریکارڈ کیا کہ احمر بلال صوفی ذاتی طور پر تصفیہ معاہدے پر دستخط اور اس پر عمل درآمد میں ملوث نہیں تھے۔احمر بلال صوفی نے کہا کہ یہ ایک اعتراف شدہ حقیقت ہے کہ انہیں کسی ایسی وجہ سے جو انہیں معلوم نہیں، لندن میں اجلاس سے دور رکھا گیا تھا جس میں جیمز کو مطلوبہ اجازت اور ضروری دستاویزات کی وضاحت کرتے ہوئے مکمل ریکارڈ لانا تھا۔