اسلا م آباد(نیوز ڈیسک)شام کی ملٹری انٹیلی جنس نے فوج اور ملٹری پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کے ایک گروپ کو حراست میں لیا ہے جس پر الزام ہے کہ وہ مبینہ طور پر شدت پسند گروپ دولت اسلامی کے جنگجوﺅں کو فوجی گاڑیوں میں اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد فراہم کرتے رہے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ملٹری انٹیلی جنس نے حماگورنری، حمص اور تدمر شہروں میں ایسی کئی فوجی گاڑیاں پکڑی ہیں جن میں فوجی سازو سامان اور دھماکا خیز مواد لادا گیا تھا اور اسے مبینہ طور پر”داعش” کے جنگجوﺅں کو پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ذرائع کے مطابق دشمن گروپ کو خفیہ طور پر دھماکہ خیز مواد سپلائی کرنے کے لیے فوجی گاڑیوں کا استعمال کیا گیا۔ گاڑیوں پر لادے گئے اسلحہ کو ایسی ترپالوں کی مدد سے ڈھانپا گیا تھا جنہیں عموما شامی فوجی استعمال کرتے ہیں۔مبصرین کے خیال میں شامی فوج کی جانب سے “داعش” جیسے انتہا پسند گروپوں کو دھماکہ خیز مواد کے ٹرک فروخت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اندرون خانہ فوج اور داعش کے درمیان تعلقات پائے جاتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شامی انٹیلی جنس اہلکاروں نے پہلے حمص میں اپنے فوجیوں کو داعش کواور گولہ بارود فروخت کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا جس کے بعد ملک کے دوسرے شہروں میں کارروائی کی گئی تو تدمر کے دیہی علاقوں اور حما? گورنری میں بھی ملٹری پولیس کو اس دھندے میں ملوث پایا گیا۔ تحقیقات کرنے پرپتا چلا کہ داعش کو اسلحہ کے ٹرک بھر کر فروخت کرنے والوں میں شام کی ملٹری پولیس اور نیشنل ڈیفنس فورس کے اہلکار بھی شامل ہیں۔محاذ جنگ سے ملنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ “داعش” کو بارود مہیا کرنے والوں میں شامی فوج کے کسی ایک ادارے کے افسر اور اہلکار ملوث نہیں ہیں بلکہ اس میں بیشتر سیکیورٹی اداروں کے بڑے بڑے عہدیدار ملوث ہیں۔ ان میں نیشنل ڈیفنس فورس، ری پبلیکن گارڈز، پولیٹیکل سیکیورٹی پولیس جیسے ادارے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس سارے اسکینڈل سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ شامی فوج اپنے ملک میں دہشت گردی کے لیے دشمن کی خود ہی مدد کر رہی ہے۔