اسلام آباد (آن لائن )سینیٹ میں اپوزیشن نے حکومت کو بے حس قرار دیتے ہو ئے کہا ہے کہ وزیر اعظم ہزارہ کمیونٹی کے غم میں شریک نہیں ہوں گے ۔ حکومت کی طرف سے ایوان کو بتایا کیا گیا کہ وزیراعظم ضرور کوئٹہ جائیں گے لیکن تدفین فوری کی جائے، دہشت گردوں کے گروہ ایک بار پھر منظم ہونے کی اطلاعات ہیں۔,اپوزیشن
نے سیاسی کارکنان کی گرفتاریوں پر بھی احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ فعل بزدلانہ ہے،اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کر کے اپنی ہمیشہ کے لیے ساکھ ختم کرنا چاہتی ہے، جمعہ کوسینیٹ اجلاس کی صدارت چئیرمین صادق سنجرانی نے کی۔جس میں سینیٹر عطاء الرحمان، عثمان کاکڑ، سسی پلیجو اور دیگر نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہے ہیں ہم نیب کو نہیں مانتے۔سیاسی مقدمات واپس لئے جائیں۔ سینیٹر عطاء الرحمان نے کہا کہ سب پوچھ رہے ہیں بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کے غم میں وزیراعظم کیوں شریک نہیں ہوئے؟ سچی بات یہ ہے کہ وزیراعظم کو ادھر جانے کی اجازت ہی نہیں ملی جب وزیراعظم کو اجازت مل جائے گی تو وزرا بھی لائن میں پہنچیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم خود تسلیم کرتے ہیں میں ناکام وزیراعظم ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ کمیونٹی کو کہتا ہوں یہ بے حس ہیں ان کے کان پر جون تک نہیں رینگے گی لہذا بہتر ہوگا کہ آپ فوری تدفین کریں۔ قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہا کہ کوئی اگر یہ کہے کہ سیاسی کارکنان کی گرفتاری نہیں ہوئی ، تو یہ بڑی غلط بیانی ہے، پی ڈی ایم کے جلسوں سے پہلے لسٹیں بنیں اور کارکنان کی گرفتاریاں ہوئیں۔قائد ایوان سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ منی لانڈرنگ، کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے پولیٹیکل ورکرز نہیں، سمجھ سے بالاتر ہے
کہ اپوزشن نے پولیٹکل ورکرز کے خلاف انتقامی کارروائیاں ایجنڈا پر کیوں ڈلوائیں؟ پولیٹکل ورکرز نے پی ڈی ایم کے بیانیے کو مسترد کی۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی ایک کال پر مینار پاکستان بھر جاتا ہے۔عمران خان نے بہت پہلے کہا تھا جب کرپشن پر بات ائے گی سب اکٹھے ہوجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پہلے بھی آپ نے لانگ مارچ
کیا لیکن آپ سے مولانا مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔جب آپ کا بیانیہ عدلیہ، افواج پاکستان اور اداروں کے خلاف ہوگا تو اسے ہر کوئی مسترد کرے گا۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ کریک ڈاون کیا گیا لیکن پولیٹیکل ورکرز کے خلاف نہیں۔ماضی میں جلسوں پر گولیاں برسائی گئیں، ماڈل ٹائون کا واقعہ کب اور کس نے کیا؟ ہم سے
بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی مگر یہاں فوج کے خلاف باتیں ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کیا مولانا کے جلسے میں فوج کی گردنیں اڑانے کی بات نہیں ہوئی؟ میری جنرل باجوہ سے کوئی رشتہ داری نہیں کل وہ ریٹائر ہوں گے سابق جنرل ہی ہوگا۔ ان کا مذید کہنا تھا کہ اس وقت وہ فوج کا سپہ سالار ہے۔جب آپ اس کے خلاف بولیں گے تو جنرل
باجوہ کے خلاف نہیں بلکہ فوج کے سپہ سالار کے خلاف بولتے ہیں، ایک سابق وزیراعظم باہر بیٹھ کر فوجی قیادت کو نشانہ بناتے ہیں۔اگر ہمت ہوتی تو اس کی توسیع نہ کرتے۔ اس سے قبل نو منتخب سینیٹر نصرت شاہین نے حلف لیا۔چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حلف لیا۔سینیٹر کلثوم پروین کے انتقال پر خالی ہونے والی نشست پر نصرت شاہین منتخب ہوئیں۔نو منتخب سینیٹر نے رول پر بھی دستخط کئے۔سینیٹ اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔